• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ اسلام آباد میں تخت نشینی کی جنگ دیکھ رہے ہیں۔ جب سے انسان پیدا ہوا ہے، وہ زمین کی مِلک پہ لڑ رہا ہے۔ یہ جھگڑے اگلی نسلوں تک سفر کرتے ہیں۔ مریم نواز، حمزہ شہباز اور بلاول کی صورت میں اگلی نسل اب ہمارے سامنے ہے۔ معمولی اکثریت کے بل پر منتخب ہونے والی عمران خان کی یہ حکومت ایک کمزور حکومت تھی۔ صدام حسین اور کرنل قذافی جیسے جن بادشاہوں کا کلہ مضبو ط تھا، وہ بھی ساری زندگی ہمسایہ ممالک کو فتح کرنے کا خواب دیکھتے رہے۔ فرق یہ ہے کہ جمہوریت کا ٹنٹنا بیچ میں آٹپکا۔ جمہوری طریق اپنانا پڑتے ہیں لیکن ہے تو وہی جنگ۔

ائیر مارشل اصغر خان بھی تو کپتان سے کم مقبول نہ تھے۔ پھر کہاں گئی یہ مقبولیت۔ بڑھاپا غالب آنے لگتا ہے۔ خلقت کو جب احساس ہوتاہے کہ اس کے ہیرو کے رگ و پے میں اب قوت باقی نہیں تو بھیڑ چھٹنے لگتی ہے۔ پرویز مشرف اور نواز شریف کی صحت خراب ہو چکی۔ پارٹی پر میاں محمد نواز شریف کی گرفت پہلے جیسی نہیں۔ معاملات مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے درمیان منقسم ہیں۔ میاں صاحب کا بس چلتا توچھوٹے بھائی کو ہرگزوہ وزیرِ اعظم بننے نہ دیتے۔ اگر وہ قید کاٹ لیتے تو ان کی جگہ لے بھی کو ن سکتا تھا۔ افتادِ طبع ہی تومگر حالات کا جبر ہوتی ہے۔

زمین کی مِلک پہ بڑے بڑ ے ملک لڑ تے ہیں۔ یہودیوں نے فلسطین پہ قبضہ کر لیا۔ جنوبی چین کے جزائر پر امریکی اتحادیوں کی چین سے ایک جنگ چل رہی ہے۔ شمالی آرکٹک پر مختلف ممالک اپنا حقِ ملکیت جتا رہے ہیں۔ ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں فاتحین اپنے زیر نگین زمینوں میں اضافہ کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک پہ یلغار کرتے رہے۔ یونان کے سکندرِ اعظم سے لے کر سپر پاور جرمنی تک‘بادشاہ ایک دوسرے کی سلطنتوں پہ حملہ آور ہوتے رہے۔ کبھی آپ انسان کی حالتِ زار کو اس وقت دیکھیں‘ جب اسے بھوک لگی ہوتی ہے اور کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔آپ مکّے لہراتے جنرل مشرف کو دیکھیں اور پھر وہیل چیئر پہ بیٹھے ہوئے مجبور انسان کو۔ انسان کو اس وقت دیکھیں‘ جب اسکے ہاتھ میں مال و دولت ہوتی ہے۔پھر اس وقت جب وہ بوڑھا، بیمار اور نڈھال ہو۔ آپ کو اچھی طرح سمجھ آجائیگی کہ دنیا میں اتنی Miseryکیوں ہے۔ قصہء مختصر یہ کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا اس کا ہے۔ اسے اس سے کوئی نہیں لے سکتا۔اس کی بادشاہی دائمی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک دن وہ یہ زمین چھوڑ کر مر جاتاہے۔

پچھلے تین لاکھ سال سے انسان زمین پہ قبضے کی جنگ لڑر ہا ہے۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ سترہ کروڑ سال پہلے اسی زمین پہ ڈائنا سار کوس لمن الملک بجاتے رہے ہیں۔ آج کہاں ہیں وہ ؟ ان تین لاکھ سال کا زیادہ تر حصہ انسان نے پتھر اورہڈیوں کے اوزاروں سے لے کر ایٹم بم اور میزائل بنانے میں صرف کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسے جوہری ہتھیار تیار ہو چکے ہیں‘ جو کرہء ارض سے زندگی کو مٹا سکتے ہیں۔ اگر‘اوپر سے کوئی حادثہ‘ کوئی دمدار ستارہ یا بڑے آتش فشاں نہ بھی پھٹے تو بھی انسان نے نہ صرف اپنی‘بلکہ ساری مخلوقات کے خاتمے کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ اس آدھے دن کی زندگی میں انسان کے دعوے بہت بلندہو گئے۔ وہ لافانی ہونا چاہتا ہے ؛حالانکہ چاند پہ قدم رکھنے والے نیل آرم اسٹرانگ اورعظیم سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ سمیت سمیت ہر قابلِ ذکر انسان اتنی ہی بے بسی سے مر رہا ہے، جیسے ایک بکری کا بچہ۔

عمران خان کا المیہ یہ نہیں کہ ان کی دلاوری میں کلام تھا۔ عام آدمی کے پیٹ میں اگر روٹی ہوتی تو لوگ ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتے ہیں۔ عمران خان کو مگر اللہ نے نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی تباہی کے لیے پیدا کیا تھا، گڈ گورننس کے لیے ہرگز نہیں۔

گھڑی ٹک ٹک کرتی جاتی ہے۔ ہر آدمی، ہر حکمران کی مہلت تمام ہوتی جاتی ہے۔ پرویز مشرف وہیل چیئر پہ بیٹھ چکے۔ زرداری صاحب کی صحت خراب ہے۔ میاں محمد نواز شریف کا جسم کھوکھلا ہو چکا۔ کسی کو یاد ہو تو ایک بے نظیر بھٹو ہوا کرتی تھیں۔ زرداری صاحب کو کون جانتا تھا۔ میاں صاحب کو سعودی عرب جانا پڑا تھا۔ پھر کس شان سے وہ واپس آئے۔ پھر کس طرح رپورٹیں دکھا کر لندن بھاگے۔ اب دوبارہ ان کے دن پھر گئے۔ عمران خان پہ بھی دن بدلتے رہیں گے۔ یہ دنیا کا دستور ہے۔ دنیا کے ہر انسان کی مہلت تمام ہوتی جا رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کا وقت ہی اب تھوڑا ہے۔ درجہ ء حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ سمندربلند ہورہے ہیں۔ روس اور نیٹو لڑنے کو بے تاب ہیں۔

یہ تنازعات صرف ممالک کی سرحدوں تک محدود نہیں۔تاریخ کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ تین بڑے مذاہب‘ یہودیوں‘ عیسائیوں اور مسلمانوں میں بہت بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ایک فیصلہ کن جنگ ہونا باقی ہے‘ جس کے بارے میں پیش گوئیاں ہو چکیں۔ جنہیں دنیا کی عسکری صورتِ حال کا تھوڑا بہت علم ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ یہ جنگیں ہو کر رہنی ہیں۔ گائیڈڈ میزائلوں سے لے کر انسان نے اپنی تمام تر توانائیاں؛اگر صرف کی ہیں‘تو تیاری پھیلانے والے ہتھیاروں کی تباہی میں۔ اس کے اس جنون کا نتیجہ اب نکلنے ہی والا ہے۔

کپتان کا کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔بہت کچھ ہونے والا ہے۔

تازہ ترین