• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے وزیراعظم اور پنجاب کے سچے خادم اِن دنوں ترکی کے دورے پر ہیں اور وہاں سے اچھی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ سب سے اچھی خبر یہ کہ لاہور کو استنبول بنانے کا عزم کیا گیا ہے جہاں مدینہ منورہ میں سرورِ کونینﷺ کے میزبان صحابی حضرت ابوایوب انصاری آرام فرما ہیں اور مرجعٴ خلائق بنے ہوئے ہیں۔ ایک زمانے میں لاہور کو پیرس بنانے کا بھی غلغلہ بلند ہوا تھا  مگر اِس میں گندگی کے ڈھیر ہر سو نظر آنے لگے تھے۔ یہ تو جب سے میاں شہباز شریف نے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ترکی کے ایک ادارے کو سونپی ہے  تو اِس کا مکھڑا دمکنے لگا ہے اور شہر کے وسیع علاقے میں پھولوں کے تختے مشامِ جاں کو معطر کیے دیتے ہیں۔ذرائع ابلاغ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ ترکی کے صدر جناب عبدالله گل نے وزیر اعظم نواز شریف کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ”تمغہٴ جمہوریت“ عطا کیا ہے۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ ہمارے حکمران ترکی سے دس بارہ معاہدے کر کے آ رہے ہیں جن سے ہماری معیشت کو تازہ خون ملنے کی اُمید باندھی جا رہی ہے۔ اتنی ہی تعداد میں پچھلے ماہ میاں نواز شریف چین سے معاہدے کر کے آئے تھے جن میں کاشغر سے گوادر تک بلٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اِن سرگرمیوں سے اُمید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں  مگر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سائے بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور موت کا رقص مختلف شہروں اور علاقوں میں جاری ہے۔
اسلام آباد کی اے پی سی میں سیاسی اور عسکری قیادت نے اِس امر پر اتفاق کیا کہ پہلے سیاسی عمل اور مذاکرات کے ذریعے امن کو موقع دیا جائے۔ اِس اے پی سی میں تمام قابلِ ذکر سیاسی اور دینی جماعتیں شامل تھیں۔ یہ قومی اتفاقِ رائے ہماری تاریخ کے بہت بڑے بریک تھرو کی حیثیت رکھتا تھا اور یہ اُمید پیدا ہونے لگی تھی کہ حکومت اور طالبان کے مابین گفت و شنید کا سلسلہ چل نکلے گا۔ ہمارے وزیرداخلہ نے اے پی سی کے شرکاء کو یقین دلایا تھا کہ ہمارے طالبان سے رابطے ہیں اور ایک میکانزم پہلے سے تیار کر لیا گیا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سیاسی قیادت سے پوری طرح ہمنوا تھے اور اُنہوں نے دوٹوک الفاظ میں تمام قائدین کے سامنے اعلان کیا کہ آپ جو بھی پالیسی بنائیں گے  ہم اُس پر عمل درآمد کریں گے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنی چالیس منٹ کی بریفنگ میں تمام حقائق کوزے میں بند کر دیے تھے اور پوری صورتِ حال کی تصویر انتہائی موٴثر انداز میں سامنے رکھ دی تھی تاکہ فیصلے تک پہنچنے میں آسانی پیدا ہو۔ وہ لمحہ جس میں یہ فیصلے سنائے جا رہے تھے  بہت دلکشا بھی تھا اور وسوسوں سے معمور بھی۔ اندیشہ تھا کہ وہ داخلی اور خارجی عناصر جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار دیکھنا اور اِس میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں  مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ،چنانچہ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ 15ستمبر کو اپر دیر میں جی او سی میجر جنرل ثناء الله نیازی  لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کا واقعہ پیش آیا جس نے امن مذاکرات کے امکانات دھندلا دیے ہیں۔ بدقسمتی یہ کہ تحریکِ طالبان کے ترجمان نے اس المناک واقعے کی ذمے داری بھی قبول کر لی ہے اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ فوج پر اِس وقت تک حملے کیے جاتے رہیں گے جب تک حکومت کی طرف سے سیزفائر کا اعلان واضح طور پر نہیں کیاجاتا۔ایک نجی چینل پر کوہاٹ سے مسلم لیگ نون کے راہنما جناب جاوید ابراہیم پراچہ اِس تاثر کی تردید کرتے رہے کہ میجر جنرل ثناء الله نیازی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت سے طالبان کا کوئی تعلق ہے۔ اُن کا موقف تھا کہ پاکستانی طالبان ریاستِ پاکستان کے وفادار ہیں  اِسی لیے قبائلی علاقوں میں کہیں پاکستان کا پرچم جلایا گیا نہ کوئی علیحدگی کی تحریک چلائی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بعض فسادی عناصر اپنی انسان دشمن سرگرمیوں کا الزام طالبان پر تھوپ دیتے ہیں اور کسی نامعلوم مقام سے کوئی شخص ذمے داری قبول کر لیتا ہے۔ اُنہوں نے افواجِ پاکستان کی عظمت کے بھی گیت گائے اور اُنہیں قومی سا لمیت اور ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ پراچہ صاحب کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فوج اور طالبان کے درمیان رابطے کا کام کرتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ بھی کہا کہ وہ جلد طالبان کی طرف سے سیز فائر کی خوشخبری سنانے والے ہیں۔ اُن کے اِس اعلان پر 72 گھنٹے گزر چکے ہیں  مگر طالبان کے طرزِ عمل میں کوئی مثبت اور اُمید افزا تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔
شاید وہ تبدیلی کسی وقت آ بھی جائے  مگر قومی اسمبلی میں بہت بڑی تبدیلی نے سول ملٹری تعلقات میں ایک روشن باب رقم کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی نے میجر جنرل ثناء الله نیازی اور اُن کے ساتھیوں کی شہادت کے ایک روز بعد اتفاقِ رائے سے قرارداد منظور کی جس میں افواجِ پاکستان کی عظیم الشان قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرنے کے علاوہ اِس پختہ عزم کا اظہار ہوا ہے کہ پوری قوم اپنی بہادر فوج کی پشت پر کھڑی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یکسو اور متحد ہے۔ یہ وہی قومی اسمبلی ہے جس کے فلور سے اُس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 2011ء میں عسکری قیادت کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں ہونے دیں گے۔ جنرل کیانی جو عزیمت واستقامت کے پیکر ثابت ہوئے ہیں  اُنہوں نے اپنے قیمتی افسروں اور جوانوں کی شہادت پر مستحکم لہجے میں جو بیان جاری کیا ہے  وہ اُن کی قوتِ برداشت اور تدبر کا آئینہ دار ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم سیاسی عمل کے ذریعے امن کو موقع دینا اور پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانا چاہتے ہیں مگر یہ گمان ہرگز نہ کیا جائے کہ دہشت گرد اپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بیان میں اِس عزمِ راسخ کا بھی اظہار کیا گیا کہ فوج دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی پوری صلاحیت اور پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ ایک انتہائی کربناک حادثے کے بعد جس نے فوج کے اندر شدید اضطراب اور بے چینی پیدا کر دی ہے  فوجی سپہ سالار نے بڑے تحمل اور بردباری سے کام لیا ہے۔
قومی سطح پر یہ دکھ محسوس کیا جا رہا ہے کہ جو فوج شہریوں کی حفاظت کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے  پاکستان کو بہت ساری بلاوٴں سے محفوظ رکھے ہوئے ہے  ریاست کی رِٹ قائم کرنے کے لیے سارے جتن کر رہی ہے  اِس کی اِن عظیم کامیابیوں پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اپنی جواں ہمت افواج کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے بجائے بعض کم نظر لوگ اِس کا امیج بگاڑنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے اور جاں نثاروں پر طعن و تشنیع کے پتھر پھینکتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے بعض سیکولر حلقوں میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف بات بات پر آواز اُٹھاتے رہنا ایک فیشن اور بہادری کا سمبل بنتا جا رہا ہے۔ حالت ِجنگ میں یہ روش بلاشبہ ملک دشمنی کی ذیل میں آتی ہے جسے عام شہری سخت ناپسند کرتا ہے کیونکہ وہ اپنی فوج سے گہرا لگاوٴ رکھتا ہے اور اُسے وطن کا محافظ سمجھتا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کو خوب اندازہ لگا لینا چاہیے کہ گوریلا جنگ کے تقاضے کیا کیا ہیں اور قیامِ امن کے لیے کیا کیا اقدامات ضروری ہیں۔ اِس نازک موڑ پر علماء اور میڈیا کو بھرپور کردار ادا کرنا اور حکومتوں کو اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور اُن کے ذہنی اور سماجی ارتقاء کے لیے برق رفتار اقدامات کرنا ہوں گے۔
تازہ ترین