• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ندیم ہاشمی جن پر 2 پولیس اہلکاروں کے قتل کا الزام تھا تفتیش کے دوران بے گناہ قرار پائے اور انہیں فوراً رہا کر دیا گیا۔یہ تفتیش جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم جس میں رینجرز، ملٹری انٹیلی جنس، آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو اور پولیس کے افسران شامل تھے نے کی۔ اس کیس میں اس وقت جب کہ کراچی میں ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، ا غوا برائے تاوان کے مجرموں اور مافیاز کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن ہو رہا ہے انتہائی شفافیت سے کام لیا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ کمپین کسی مخصوص سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف نہیں بلکہ اس کا نشانہ دراصل مجرم ہیں۔ وہ ”نامعلوم افراد“(جن کا علم سب کو ہے) جنہوں نے کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہروں میں اس دن بہت بڑا طوفان کھڑا کیا اور ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے جس دن ندیم ہاشمی کو گرفتار کیا گیا کو اب سوچنا چاہئے کہ ان کا ری ایکشن بے جا تھا ۔ایم کیو ایم باقی بہت سی سیاسی جماعتوں سے اس لحاظ سے بالکل مختلف ہے کہ اس کا کسی واقعہ پر ردعمل انتہائی سخت ہوتا ہے اور یہ وہ باتیں شروع میں ہی کہ دیتی ہے جو اسے آخر میں کہنی چاہئے۔ احتیاط کا دامن نہیں تھاما جاتا ۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کراچی کی سب سے پاپولر سیاسی قوت ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر آپریشن میں اب تک مختلف سنگین الزامات میں گرفتار افراد کی تعداد کو سامنے رکھا جائے تو ان میں سے تقریباً آدھے کسی نہ کسی طرح ایم کیو ایم سے منسلک ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان2 پولیس اہلکاروں کو جن کے قتل کے الزام میں ندیم ہاشمی کو گرفتار کیاگیا، کا قاتل کون ہے۔یہ رینجرز اور پولیس کا کام ہے کہ ان مجرموں کو تلاش کرے اور قانون کے کٹہرے میں لائے۔
جب وزیراعظم نوازشریف نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے صلاح مشورہ کیا تو ایم کیو ایم نے بھی اس کی مکمل حمایت کی تھی اور باقی سیاسی جماعتوں کی طرح صاف کہا تھا کہ جہاں کہیں بھی مسلح گروہ سیاسی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں، کو ختم کیا جائے تاہم آپریشن کے شروع ہونے کے ایک ہفتے کے بعد ہی اس نے اپنا روایتی واویلا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ اس کے خلاف 1992ء جیسا آپریشن شروع کر دیا گیا ہے تاہم یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ 1992ء اور اس سے پہلے والے آپریشن میں بہت سے افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے اور کراچی میں ایک طوفان برپا تھا۔ ایم کیو ایم بھی پوری طاقت سے مقابلہ کرتی رہی مگر موجودہ آپریشن ان سے بالکل مختلف ہے۔ اس کا سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ کسی مجرم کو چاہئے اس کے جرائم کی سنگینی کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اور ان کی لسٹ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو مقابلے میں نہیں مارنا بلکہ اسے بھی گرفتار کرنا ہے اور قانون کے مطابق عدالت سے سزا دلوانی ہے۔ مزید یہ کہ 1992ء والا آپریشن پاکستان آرمی نے کیا تھا جس میں نہ تو اس وقت کی سویلین حکومت جس کے وزیراعظم نوازشریف تھے اور نہ ہی ایم کیو ایم سے کسی قسم کا مشورہ کیا گیا تھا۔ موجودہ آپریشن میں آرمی کا دخل نہیں ہے رینجرز اور پولیس یہ کام کر رہی ہے ۔ رینجرز کئی برسوں سے کراچی میں تعینات ہے اور انہیں اس آپریشن کے لئے خصوصی طور پر وہاں نہیں لایا گیا۔
مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کے لئے قانون انسداد دہشت گردی میں بہت سی ترامیم کی جارہی ہیں تاکہ ہر ٹارگٹ کلر، بھتہ خور اور اغوا برائے تاوان کے مجرم کو قانون کے مطابق سزا ملے نہ کے اسے مقابلے میں پار کر دیا جائے۔ ابتدائی نظر بندی کا دورانیہ 30 دن سے بڑھا کر 90دن کیا جارہاہے تاکہ جامع تفتیش کی جاسکے اور مجرم کے خلاف ناقابل تردید شہادتیں اکٹھی کی جاسکیں۔یہ بھی تجویز زیر غور ہے کہ گواہوں کی شناخت کو چھپایا جائے تاکہ وہ مجرموں کے سرپرستوں یا ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ نہ بن سکیں۔ اس بارے میں گواہوں کے چہرے کو نقاب پہنا کر عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔ گواہوں، ججوں، پراسیکیوٹرز اور انویسٹی گیٹرز کے تحفظ کا بھی خصوصی اہتمام کیا جا رہا ہے تاکہ یہ تمام لوگ بغیر خوف وخطر اپنا کام کر سکیں اور اپنا اولین مقصد یعنی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ وکلاء میں سے اسپیشل پراسیکیوٹرز مقرر کئے جائیں گے جن کا سربراہ ایک سینئر ایڈووکیٹ ہو گا۔ پولیس ہی نہ کہ رینجرز پراسیکیوٹنگ ایجنسی ہو گی ۔اس بات پر غورکیا گیا کہ رینجرز کو پراسیکیوٹنگ ایجنسی بنایا جائے مگر مختلف قانونی پچیدگیوں کی وجہ سے اس آئیڈیا کو ڈراپ کردیا گیا تاہم رینجرز ہی مجرموں کو پکڑنے میں لیڈ ایجنسی کا رول ادا کرے گی اور پولیس اس کی مدد کرے گی۔ اس کے علاوہ رینجرز مقدمات کے اندراج اور گواہوں کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
سالہا سال سے کراچی پولیس کی کارکردگی انتہائی قابل تشویش رہی ہے جس کی وجہ سیاسی جماعتوں کی مداخلت ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی پسند کے افراد اس فورس میں بھر دیئے ہیں جن کا کام اپنے آقاؤں کو خوش کرنا ہے نہ کہ مجرموں کو پکڑنا اور جرائم کا خاتمہ کرنا۔ اس کی وجہ سے پولیس میں کرپشن اور نااہلی زوروں پر ہے اور احتساب کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے 5سال اس فورس کو تباہ کر کے رکھ دیا تاہم اس نے جو اب اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کی ہیں وہ یقیناً قابل ستائش ہیں کیونکہ ایماندار، پروفیشنل اور دلیر افسروں کو سامنے لایا گیا ہے اور نکمے اور کرپٹ حضرات کو چلتا کیا گیا ہے۔ کراچی پولیس کے نئے چیف شاہد حیات کاتقرر بہت عمدہ ہے ۔ ان میں اتنی جرأت ہے کہ وہ سیاسی دباؤ کو ”نو“ کہہ سکیں ایسا ہی افسر کراچی میں چاہئے تھا۔اس کے علاوہ جو کراچی کے مختلف اضلاع میں ڈی آئی جیز لگائے گئے ہیں وہ بھی اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ان افسران کی موجودگی میں آپریشن میں خاطر خواہ کامیابیاں ہوں گی مگر شرط یہ ہے کہ پولیس کی رینجرز کے ساتھ کو آرڈی نیشن کافی مضبوط رہے ۔ یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان دونوں فورسز کے درمیان تعاون میں رخنہ نہ پڑے۔ ان تقرریوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ساڑھے پانچ سال میں پہلی بار پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت نے نیت کی ہے کہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے ۔ شاید اب اس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا کب تک وفاقی حکومت اس کی نااہلی کو برداشت کر سکتی ہے۔
تازہ ترین