• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک وضاحت ضروری ہے کہ جنرل نالج کے ”چوری شدہ سوالنامہ “ کے جوابات دروغ پبلشرز کی جنرل گائیڈز سے نقل کرنے کا مقصد محض مقابلے کے امتحان میں شرکت کرنے والے امیدواروں کی رہنمائی ہے ۔ ہمارے کوئی سیاسی عزائم ہیں، نہ ہی دروغ گوئی میں کسی سے مقابلہ کرنا مقصودہے ، ورنہ یہاں تو یہ عالم ہے کہ لوگ دوچار ”جھوٹ“ لکھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ امر ہو گئے یعنی امر طویل ہوگئے۔ بخدا ہم نے تو اس معاملے میں کبھی اپنے آپ کو اپنے سینئرز کی گرد بھی نہیں سمجھا۔ وضاحت تمام ہوئی ۔چلیں آج ابتدا ہی جھوٹ سے کرتے ہیں ، مراد یہ ہے کہ سوالنامہ ہذا کے جھوٹ والے سوال سے آغاز کرتے ہیں ۔
سوال: قلم سے جھوٹ لکھنے اور قلم سے ازار بند ڈالنے میں فرق بیان کریں ۔
جواب: ہر دو افعال کے درمیان فرق کو ہم اس طرح واضح کر سکتے ہیں کہ(1)قلم سے جھوٹ لکھنا ایک مالیاتی جبکہ ازار بند ڈالنا غیر مالیاتی سرگرمی ہے ،دوسرے الفاظ میں اول الذکر منافع بخش اور موخر الذکر غیر منافع بخش فعل ہے ۔ (2) قلم سے جھوٹ لکھنے کے لئے ضمیر سے چھٹکارا پانا لازمی ہے جبکہ ازار بند ڈالنے کے لئے ایسی کوئی قدغن نہیں یعنی زندہ ضمیر کے ساتھ بھی قلم سے ازار بند ڈالا جا سکتا ہے ۔ (3) جھوٹ لکھنے والاقلم معروف ہوتا ہے اور سامنے آ کر واردات کرتا ہے جبکہ ازار بند ڈالنے والا قلم غیر معروف اور نیفے (جہاں سے پولیس چرس برآمد کرتی ہے ) میں چھپ کر اپنا کام دکھاتا ہے (4) قلم سے جھوٹ لکھنے کیلئے قلم کا من سیاہ ہونا ضروری ہے یعنی اس کے اندر سیاہی کا ہونا لازمی ہے جبکہ ازار بند خالی قلم سے بھی ڈالا جا سکتا ہے، جیسے وزارتیں خالی دماغ سے بھی چلائی جا سکتی ہیں(5) مروجہ معاشرتی اقدار کے مطابق جھوٹ لکھنے والا قلم معتبر اور قابل فروخت جبکہ دوسرا غیر معتبر ہے اور اسے کوئی نہیں خریدتا۔ (6) قلم سے کمزور قسم کا ازار بند یا اسے صحیح طریقے سے نہ ڈالا جائے تو صاحب لباس بھری محفل میں برہنہ ہو کر شرمندہ ہو سکتا ہے جبکہ قلم سے جھوٹ لکھنے والا پہلے ہی سب کے سامنے شرم پروف ہوتا ہے۔
نوٹ: کئی ممالک میں قلم کا تیسرا استعمال بھی رائج ہے یعنی اس سے سچ لکھنا ۔ تاہم چونکہ اس اسلامی جمہوریہ میں سچ لکھنے والے قلم کی کوئی وقعت نہیں لہٰذا نہ سوال میں اس کے بارے میں پوچھا گیا ہے اور نہ ہی جواب میں جنرل گائیڈز کے صفحات اور وقت ضائع کیا گیا ہے۔ ویسے بھی یہاں سچ لکھ کر کب کوئی امتحان پاس کیا جا سکتا ہے یا اس کے دام ملتے ہیں (پبلشرز)
سوال: مفکرین کی آراء کی روشنی میں شعورو آگہی کے نقصانات بیان کریں؟
جواب: شعورو آگہی کے مہلک اثرات پر مختلف مفکرین نے اپنے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔ پروین شاکر کا قول ہے ”آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا “ ایک اور مفکر کا قول زر ہے ” آنکھیں اور کان نہ ہوں تو دماغ آسودہ رہتا ہے اور دماغ کو زیادہ کام کرنا پڑے تو جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے“ صوفیہ بیدار کے مطابق”شعور بڑھنے کا نقصان یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کے مدار سے غم دوراں کی طرف جا نکلتا ہے اور یہ مدار اتنا بڑا ہے کہ ذات کے دکھ کہیں دور رہ جاتے ہیں“ ۔ حسن نثار صاحب نے کہا ”سوچنے والا صلیب پر ہوتا ہے اور جسے حالات کی سنگینی کا ادراک ہے، اس کا جینا حرام ہے“۔ مرد مومن ضیاء الحق نے آگہی کی وبا کے تباہ کن اثرات کو سیم و تھور سے تشبیہ دیتے ہوئے باقاعدہ دھمکی دی ”میں خود پسند دانشوروں کی طرف سے ملک کی نظریاتی سرزمین میں کسی قسم کی سیم و تھور برداشت نہ کروں گا“۔ کسی مفکر کی یہ دلیل بھی بڑی مضبوط ہے ” دولے شاہ کے چوہے عقل مندوں کے مقابلے میں توانا تن و توش کے مالک ہوتے ہیں“۔ جناب عطاء الحق قاسمی کا قول ہے ”گھوڑا اس لئے طاقتور ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی لعنت سے پاک ہوتا ہے“۔ بہت سے دانشوروں کا مشترکہ فرمان ہے ”ہمیں مشاہیر اور مشائخ کی ضرورت ہے، سائنسدانوں کی نہیں“۔ پس مفکرین کی آراء کی روشنی میں ثابت ہوا کہ ”عقل نہ ہووے ، تے موجاں ای موجاں“ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ”آگہی کا نصاب رہنے دو/ زندگی محو خواب رہنے دو “۔
سوال: ملاوٹ و ذخیرہ اندوزی کرنے، جعلی ادویات بنانے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے کو آپ کس زاویئے سے دیکھتے ہیں؟ نیز مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے کوکنگ آئل بنانے کا فارمولا بھی لکھیں ۔
جواب: ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ،جعلی ادویات اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے جیسے ”افعال کبیرہ“ کو ہم جس زاویئے سے بھی دیکھیں، یہ ہماری زندگیوں کا جزو لاینفک نظر آتے ہیں ۔ ایک خاص زاویئے سے تماشا کریں تو یہ عقدہ وا ہوتا ہے کہ ضمیر چاہے کتنا ہی لاغر کیوں نہ ہو، اس کی موجودگی میں ایسے امور بجا لانا کارِ فرہاد سے بڑھ کر ہے ۔ ایک اور زاویئے سے دیکھیں تو افعال ہذا کے فاعل بظاہر نیک ، شریف اور خدا ترس نظر آتے ہیں تاکہ ”مفعولوں“ کا اعتمادحاصل کیا جا سکے۔ اگر فاعل حاجی صاحب ہو تو نہلے پہ دہلا ہے تاہم دودھ میں پانی ملانے کیلئے یہ شرائط لازمی نہیں ، فاعل کا گوالا یا گجر ہونا کافی ہے۔ لکڑی کے برادے کا چائے اور اینٹوں کا پسنے کے بعد مرچوں میں شامل ہوکر اپنی گراں قدر خدمات انجام دینا اور ذائقوں کو نت نئی جہات سے روشناس کرانا ان افعال جمیلہ کی ادنیٰ ترین مثالیں ہیں۔کسی نامعلوم دانشور نے افعال متذکرہ کو ذرا مختلف زاویئے سے دیکھتے ہوئے واصف علی واصف کے قول ”یتیم کا مال کھانے والا ہزاروں یتیم خانے بنا کر بھی سکون نہیں پائے گا“ کی زمین میں کہا ہے کہ ”ملاوٹ وذخیرہ اندوزی کرنے،جعلی ادویات بنانے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والا چاہے سو حج بھی کرلے …(اس سے آگے صفحہ پھٹا ہوا ہے ۔ گمان اغلب ہے کہ آگے مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے کوکنگ آئل بنانے کا فارمولا لکھا ہوا تھا ، جسے کسی نے پھاڑ کر محفوظ کرلیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کم بخت جلد بازی میں نامعلوم دانشور کا آدھا قول بھی پھاڑ کر لے گیا)۔
سوال: وہ کون سے نفسیاتی عوامل ہیں ، جن کی بنا پر کوئی امن پسند اور قانون کی پابندی کرنے والا شہری بھی ماورائے قانون اقدامات اٹھانے کے مطالبات کرنے لگتا ہے؟
جواب: اس نوع کے المناک سوالات کسی بھی امتحان میں پوچھا جانا مناسب نہیں ہوتا کیوں کہ درد دل رکھنے والے امیدوار ان کا جواب لکھتے ہوئے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کا پیپر ادھورا رہ جاتا ہے بلکہ پرچے کا حل شدہ حصہ بھی آنسوؤں میں غرق ہوکر ضائع ہو جاتا ہے۔ بہرحال سوال کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی باؤلا حیوان یا درندہ کسی انسان کی پانچ سالہ پھول سی بچی پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑتا ہے یا وہ کسی چھ سالہ کلی کو مسل دیتا ہے یا درندگی کو بھی شرمانے والا حیوانوں کا کوئی گروہ کسی معصوم بچے کو زیادتی کا نشانہ بنا کر مار ڈالتا ہے تو …ضبط کے پختہ سے پختہ بندھن بھی ٹوٹ جاتے ہیں ،جگر زخمی اور کلیجے چِر جاتے ہیں اور مضبوط اعصاب کے مالک ، پر امن اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری بھی ان باؤلے حیوانوں کو بلا تاخیر کتے کی موت مارنے کے مطالبات کرنے لگتے ہیں ۔ اس جذباتی اور ماورائے قانون ردِعمل کے پیچھے جو نفسیاتی عوامل کار فرما ہیں، ان میں قانون کے نفاذ کی جنگل کے قانون سے مشابہت ، پولیس کامکروہ، دیمک زدہ اور غلیظ تفتیشی نظام اور انصاف کیلئے عدالتوں کا طویل، بوسیدہ اور زنگ آلود سسٹم ہے۔ یہ سارے عوامل باہم مل کر معاشرے میں ایسا حشر برپا کرتے ہیں کہ وہ جنگل کا منظر پیش کرتا ہے جہاں اول تو درندے گرفتار ہی نہیں ہوتے یابری ہو جاتے ہیں یا پھر سزا سن کر وکٹری کے نشان بناتے ہیں اور مظلوم کے ورثا کو ناجائز ہتھکنڈوں (جن کو ریاست کی معاونت حاصل ہوتی ہے ) کے ذریعے راضی نامے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان حالات میں شریف شہری ابنارمل ہو جاتے ہیں اور ماورائے قانو ن اور ماورائے عدالت فوری کارروائیوں کے مطالبات کرنے لگتے ہیں۔
تازہ ترین