• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عورت کے وجود، ہیئت اور لذت کی روداد سارے زمانے کے شعراء نے لکھی اور اس کو ہی جرأت و بہادری کہا۔ عورت نے کبھی شرما کر اور کبھی لجا کر اس طرز بیاں کو تسلیم کیا۔ خود کو اس پیکر میں ڈھالنے کی کوشش بھی کی، وہی بننے کی آرزو کی جو مرد نے چاہا۔ اس پیکر کو وفا کا نام دیا، اسی کو عصمت برآری کہا اور خوش رہی۔
سیفو ہوکہ جین آسٹن یا قرة العین طاہرہ، ان کی تحریروں کو پہلے حیرت سے دیکھا گیا پھر ان کی تحریروں میں اسکینڈل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اردو نثر میں تو ڈپٹی نذیر احمد کے تتبع میں رقیہ سخاوت حسین سے لے کر عصمت چغتائی کو کبھی حیرت سے اور کبھی خاموشی سے تسلیم کیا گیا مگر ز۔خ۔ش ہو کہ ادا جعفری، حکم تھا کہ حیا کی جو لکیر کھینچی گئی ہے اس ریکھا کو نہ کبھی الفاظ میں توڑنے کی کوشش کی جائے اور نہ معاشرتی سطح پر۔
اردو شاعری کی لغت اور بیان کو تبدیل کرنے کی جرأت بیسویں صدی کا واقعہ ہے کہ جب عورت نے اپنے وجود کو شخصیت میں تبدیل کر کے اپنی ضروریات، خواہشات اور احساسات کو تحریر میں لانے کی کوشش کی۔ بس یہیں اردو شاعری کا منظرنامہ ہی نہیں ساری دنیا کی شاعری میں یہ بیانیہ شامل ہو گیا کہ عورت کی محبت اور اپنے وجود کے استحصال کی کسک کیسے بیان کی جاتی ہے۔ رفعت زہرا کے نئے مجموعے میں بنیادی استعارہ وقت ہے۔ وہی وقت جس کو آئن اسٹائن نےTheory of relativity کے انداز کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہی وقت جس کو برٹرینڈرسل نے اپنی خودنوشت میں لکھتے ہوئے کہا ہے کہ وقت Relative to space ہوتا ہے۔ وقت کا پھول توڑنا، وقت کی کہانی لکھنا، وقت جو گزر گیا اس کو یادوں کی طرح محفوظ رکھنا مگر کیا یادیں وقت کا بدل ہو سکتی ہیں۔ وقت سوال کرتا ہے، پوچھتا ہے بچپن کیسا تھا، کون سی آرزوئیں ادھوری رہ گئیں۔ وقت اپنی جگہ جتنا تیز چلتا ہے زمانہ اور سائنس اس سے تیز چلتی ہے۔ بچپن میں ریل کا سفر ہی رومانویت رکھتا تھا پھر زندگی کو ہوائی سفر بھانے لگا اور پھر خواہش ہوئی کہ کروز پر جایا جائے۔ 82 سال کی عمر میں جب سلیم الزماں صدیقی سے میں نے پوچھا ”وقت کیا ہے“ بولے محبت میں عمر گزارو اور کسی سے حسد نہ کرو۔ ثروت نے یہ سب کچھ جانے بغیر محسوسات کی سطح پر مقروض بولے اور کاغذی جذبے اس لئے بیان نہیں کئے کہ عام طور پر مرد لکھنے والے ایسے احساسات کو فرسٹریشن کی نشانیاں بتا دیتے ہیں۔ انہیں اگر یہ احساس ہو کہ چوبیس گھنٹوں میں سے 18 گھنٹے کام کرنے والی عورت ہی لکھ سکتی ہے کہ درد کے پیالوں میں ضبط چندھیا گیا ہے، کھا لیجئے“۔ تو یہ انعکاس ہے اس عورت کا جو کہہ رہی ہے کہ میں توے پر پڑی ہوں، ابھی جل رہی ہوں۔ بہت سے شاونسٹ مرد، عورت کے اس اظہار کو فیشن کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں اس لئے انہیں اس کلف کا احساس نہیں ہوتا جب عورت لکھتی ہے ”تھکن بستروں میں پڑی اونگھتی ہے“۔
ثروت ذہنی طور پر پاکستان میں رہتی ہیں اور اس کا وجود شارجہ میں ہے۔ وہ ملک جو عورتوں کو بیویوں کی تعداد کے لحاظ سے عورت کو یاد رکھتا ہے مگر ثروت کو نیو ورلڈ آرڈر میں نوکری کی تلاش میں ہجرت کرنے والوں کی کسک بیان کرنے کیلئے اسے دہرے معیار کے فیصلوں کی دکان پہ کھڑا ہونا پڑتاہے۔ اس کی روح اور نظریں کراچی میں اور پاکستان بھر میں یہ کہتے ہوئے بلاتی ہیں کہ ”شام جنازے ڈھوتے ڈھوتے تھک جائے گی“ وہ پاکستان کا سوچتی ہے تو اسے غم رسیدہ خواب یاد آتے ہیں۔ کراہت کی منڈی یاد آتی ہے۔ گھڑی کی ٹکٹکی سن کر وہ خوابوں میں نہیں کھوتی بلکہ اسے دل کا دیمک زدہ شہر یاد آتا ہے۔
بے یقینی، خوف اور رہائی کی استدعا، اس کی شاعری کا مرکز ہیں۔ وہ بلبلا کر کہتی ہے ”پرندے مسکراتا آسمان چاہتے ہیں کہ ہمارے اردگرد میزائلوں، ڈرون طیاروں کے حملے کا تازیانہ ثروت سے کہلواتا ہے“ جنگوں کی وحشت خون جنتی ہے کہ یہی وقت کی کرنسی ہے۔ ثروت بار بار تنگ آ کر کہتی ہے کہ وقت کو سو جانا چاہئے۔ وہ نئے سال کے خواب میں ٹھہری نہیں رہتی بلکہ اذیت کے ساتھ کہتی ہے ”مرے درد کی پوٹلی آج پھر سے کھلی ہے“ وہ بار بار یاد دلاتی ہے معاشرے کو کہ ہم سب دہرے معیار کے فیصلوں کی دکان پر بیٹھے ہیں جہاں وقت بھی مرہم نہیں ہے بلکہ وقت تو مقابلے میں کھڑا پوچھتا ہے تم اپنے وجود کو تسلیم کرانے کیلئے کب تک زمانے اور مرد سے رہائی کی استدعا کرتی رہو گی، کب تک شعور کی سیڑھیوں کو کھینچتی رہو گی۔
ثروت نے اپنے ملک کے لوگوں کو مزدوروں کی زندگی گزارتے، بھری دوپہر میں بادشاہوں کے باغوں کو پانی دیتے دیکھا ہے۔ پرائے اجنبی ملکوں میں الف اکیلی تنہائی کو سہا ہے اور وجود کے تلاطم کے تموج کو اشعار میں ڈھالا ہے۔ معترض لکھتے ہیں ”عورت ان جذبوں سے Exploit کرتی ہے۔ انسانی حقوق والے کہتے ہیں ”اگر وہ بھی بیان نہ کرے تو بیان کرنے کو آسمان سے فرشتے تو نہیں اتریں گے“۔
تازہ ترین