• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید ترین علوم میں سے ایک علمِ ابلاغیات ہے جو عقلِ سلیم سے جڑا دوسرا بڑا شرفِ انسانی ہے۔ اِس علم کی دریافت نے انسان پر یہ انکشاف کیا کہ مطلوب و مخصوص ابلاغ، کامیاب زندگی کی کنجی ہے اور غیر مطلوب ناکام و منتشر زندگی کی سب سے بڑی وجہ۔ زندگی افراد کی ہو یا اقوام کی، اُس کی کامرانی اور شکست خوردگی کا زاویہ نگاہ اور اس حوالے سے اہداف اپنے اپنے۔ ان کیلئے ’’موثر‘‘ ابلاغ لازمہ ہے جو ہر کمیونیکیشن آپریشن میں مطلوب اور مخصوص نوعیت کا ہوتا ہے جس کی نشاندہی کمیونیکیشن سائنس کرتی ہے۔

ایک فرد یا قوم کو کیا مطلوب و مقصود ہے، یعنی ان کی کامیابی و کامرانی کا زاویہ نگاہ کیا ہے۔ یہ معلوم کرنا بذات خود مخصوص ابلاغ کا محتاج ہے جس کی نشاندہی علمِ ابلاغیات ہی کرتا ہے۔ زندگی انفرادی ہو یا قومی، اس کےکسی مرحلے میں کبھی فوری طور پر یہ معلوم کرنے کی ضرورت شدت اختیار کر لیتی ہے کہ کوئی مخصوص فرد یا قوم آخر چاہتی کیاہے؟ اس کا مقصود و مطلوب کیا ہے؟ درست جواب سے ہی کامیابی و کامرانی کیلئے مخصوص و مطلوب ابلاغ کی نشاندہی ہو پاتی ہے، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود ہی فرد یا قوم کی طرف سے ہونے والا ابلاغ مسلسل اس کی نشاندہی کردیتا ہے اور یہ معلوم کرنے کیلئے جو پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں، اُس کیلیے مشقت و منظم اہتمام نہیں کرنا پڑتا۔ قوم کی سطح پر اس مرضی کی عملی شکل میں علمِ ابلاغیات ’’رائے عامہ‘‘ کہلاتی ہے یہ اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ اس سے قومی زندگی کے بڑے بڑے حاصل اور خسارے ہوتے ہیں۔ حاصل وہاں ہوتا ہے جہاں اہداف کے حصول کی جہد میں مطلوب و مخصوص ابلاغ کی معاونت مل جائے اور خسارہ وہاں جہاں اصل اہداف کی نشاندہی نہیں ہوتی یا اسے موثر ابلاغی معاونت نہیں ملتی۔ بہرحال جب ملتی اور رائے عامہ مقررہ اہداف کے مطابق بنتی ہے تو اس سے قومی زندگی کے بڑے بڑے اہداف حاصل ہونا مشکل نہیں رہتا۔ تاہم یہ ذہن نشین رہے کہ رائے عامہ کی تشکیل کا برقرار رہنا، اسے بڑھانا بہت حساس عمل ہے اور چیلنجنگ بھی۔ وجہ یہ کہ ’’رائے عامہ‘‘ بالعموم لچک دار ہوتی ہے، یہ جتنی بھی مثبت ہو اسے ڈسٹرب اور تبدیل کرنے کے طریقے بھی علم ابلاغیات کے احاطے میں آتے ہیں، جس کیلئے پروپیگنڈے یا جدید اصطلاح میں سائیکلوجیکل وارفیئر کا فرنٹ تیار کرنا ہوتا ہے۔ یہاں یہ ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ جب عوام الناس میڈیا کی اطلاعات، تجزیوں،تبصروں اور جملہ پیغامات کے متوازن اپنی ہی اطلاعات ویقین، تجزیوں اور عوامی بیانیوں کے زور پر اپنی پوزیشن اپنے باہمی ابلاغ سے خود بناتے ہیں تو یہ ’’رائے عامہ‘‘ بقول شاعر ’’نقارہ خدا‘‘ کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور تبدیلی و نئے حصولات کی ایسی راہ (نیچرل کورس) بنتی ہے، جس میں رکاوٹ ڈالنے کی تگ و دو تو ہوتی ہے، رکاوٹیں آتی بھی ہیں، لیکن یہ رہ نہیں سکتیں۔

پاکستان مسلمانان ہند (متحدہ) کی بے لچک اور نقارہ خدا بن جانے والی زور دار ’’رائے عامہ‘‘ پر قائم ہوا تھا۔ ہمارا قافلہ آزادی 23مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک پہنچا تو ہم نے قائداعظم کی قیادت میں نقارہ خدا بجاتے پاکستان بنانے کی حتمی پوزیشن لے لی تھی، پھر یہ نقارہ ایسا بجا اور اتنا بجا اتنابجا کہ بجتے بجتے مقصد عظیم پاکستان حاصل ہوگیا۔ بنتے ہی ایک سال میں یتیم بھی ہوگیا۔ اپنے ہی پیدا کئے جملہ سیاسی، سماجی و معاشی امراض میں مبتلا ہونے لگا۔ دشمنان کی نظربد بھی گڑنے لگی کہ مذموم عزائم موجود تھے۔ بے جا اندرونی و بیرونی سازشوں، مداخلتوں اور دبائو دھمکیوں نے آن گھیرا۔ ٹو ٹ گیا۔ باقیماندہ پھر ایسے ہی ماحول میں آجروں کے گھر میں جیسے تیسے پلتا بڑھتا رہا۔ عمر تو کمسنی کی ہی ہے کہ اقوام کی زندگی میں عشرے سال اور صدیاں عشروں برابر ہوتی ہیں۔ اب جو ناچیز اپنے ہم عصروں کے ساتھ عمر پیری کو پہنچا ہے تو پھر ’’نقارہ خدا‘‘ بجنے کی آواز آرہی ہے۔ ہر طرف سے شنید ہے کہ آواز مسلسل اور زور دار ہے، لیکن ہمیں کم کم سنائی دے رہی ہے کہ نقارہ ڈیجیٹل میڈیا پر بج رہا ہے، جس کے ہم گزارے برابر یوزر ہیں، باوجود اس کے کہ نصف صدی دشت صحافت میں گزاری اور اس سے جڑی کم بخت سیاست سے ذہنی واسطہ رہا۔ جی ہاں ہماری سیاست کم بخت ہی ہے جس نے اتنے پوٹینشل والی قوم کو بھی جو ٹوٹ کر اور بدستور جملہ امراض میں رہ کر بھی ایٹمی طاقت بن گئی، بدنصیب بنا دیا۔ ہمارے ڈیجیٹل میڈیا نے تو پیسے سے چلنے والی میڈیا مینجمنٹ کو پاکستان میں تو ٹھکانے لگا دیا ہے کہ پاکستانی قوم جس کا 60فیصد 40 سال تک کا طبقہ کسی کی رائے سازی سے متاثر ہونے کی بجائے خود رائے ساز بن گیا ہے، اپنی رائے سازی کے بعد اپنی پوزیشن لے چکا کہ ہم نے کیسی قوم بننا ہے؟ اس سوال کا اس کے پاس زور دار جواب اور دلائل ہیں۔ اس نے ڈیجیٹل میڈیا کا محاذ سنبھال لیا ہے۔ دوسری جانب سازشی، قوم کی رائے سازی کے عمل میں مداخلت اور سازش سے بنتی رائے کو سبوتاژ کرنے، بلکہ اسے ڈیزاسٹر میں تبدیل کرنے کیلئے بھی آزادہے۔

مین سٹریم میں میڈیا کا اپنا رویہ، مجبوریاں اور محبوبیاں ہیں۔ بھارت پر بڑا حملہ کرکے سازشیوں نے اسے سیکولرسے بنیاد پرست بنا دیا۔ لیکن پاکستانی قوم نے کمال کردیا ایک ہی رات میں اپنا دل و دماغ نکال کر باہر رکھ دیا۔ دنیا کو دکھا دیا اور دو تین دن میں ایسی پوزیشن لی کہ باوجود اس کے کہ دشمنان پاکستان نے بڑی مداخلت کی اور پاکستانی قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے اور اس کے ایک پیج کو مسخ کرنے میں ابتدائی کامیابی حاصل کی ہے، لیکن سچے کھرے کروڑ ہا پاکستانیوں کی لی گئی پوزیشن بلاکی مستحکم لگ رہی ہے۔ جو مسائل پیدا ہوئے ہیں رکاوٹیں آئیں، آ رہی ہیں یہ جلد ہٹ جائیں گی۔ سوشل میڈیا سے بجنے والا نقارہ خدا رنگ دکھاتا معلوم دے رہا ہے۔ جو ہماری بڑی بڑی پاپولر سیاسی اور انتظامی طاقت کی حامل سیاسی، عسکری حکومتیں نہ کرسکیں وہ یہ نقارہ بجنے سے حاصل ہوتا معلوم دے رہا ہے۔ بھارت کے برعکس ہماری کھری سچی اور پاکستانی ذہن سے بنی رائے عامہ نے نقارہ خدا کی شکل اختیار کی اور بھارتی رائے عامہ امبانی گروپ کی مالی معاونت سے تشکیل پانے والی رائے عامہ کے زور پرسیکولر سے مذہبی جنونی رنگ میں رنگا گیا۔ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں اور قومی امور کے جملہ بڑے بڑے سٹیک ہولڈرز بجتے نقارہ خدا کو سنیں، سمجھیں اور بمطابق اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن ہوشیار، دشمن ہمارےسوشل میڈیا میں گھس چکا ہے اور حملہ آور ہے، پکڑا بھی گیا پھر بھی موجود ہے۔ ہوشیار خبردار ۔لیکن سنو سنو نقارہ خدا کی آواز سنو! آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔

تازہ ترین