• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے ہم سخن ہونے کا دن۔ افطار پر آپ کی تو ہر روز ہی اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں سے ملاقات ہورہی ہوگی۔ کسی دن بیٹی کے ساتھ نواسے نواسیاں بھی روزہ کھولنے آجاتے ہوں گے۔آج پندرھواں روزہ ہے۔ ماشاء اللہ آج ہمیں ان لاکھوں بچوںکو یاد کرنا ہے، جن میں سے کسی کی ماں نہیں ہے کوئی باپ کی شفقت سے محروم ہے۔ پاکستان میں ایسے معصوم 45لاکھ سے زیادہ ہیں۔ مختلف اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں 15 رمضان المبارک کو ’یوم یتامیٰ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے مطابق دنیا بھر میں 15کروڑ سے زیادہ یتیم بچے بچیاں ہیں ان میں سے ایک کروڑ 30لاکھ ایسے ہیں جن کے ماں باپ دونوںنہیں ہیں۔15کروڑ میں سے چھ کروڑ یتیم بچے صرف ایشیائی ملکوں میں ہیں۔ حکمرانوں کی ضد۔ سپر طاقتوں کی چیرہ دستی سے یتیموں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اب یوکرین میں کتنے بچے یتیم ہوگئے ہوں گے۔ یمن میں کتنے زیادہ ہوگئے ہوں گے؟

الطاف حسین حالی یاد آتے ہیں:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

فقیروں کا ملجا غریبوں کا ماویٰ

یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ یتیم اس کا رشتے دار ہو یا غیر۔ جنت میں ایسے ہوں گے۔ جیسے یہ دو انگلیاں(صحیح مسلم)۔ ایک حدیث مبارک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو۔ اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہورہا ہو۔ بد ترین گھر وہ ہے جہاں ایک یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہورہا ہو۔

انفرادی طور پر بعض خاندانوں میں کسی بیماری، حادثے میں ماں یا باپ کے اٹھ جانے سے بھی بچے یتیمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عالمگیر وبائوں میں بھی بعض گھروں پر یتیمی کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ لیکن ملکوں کے درمیان جنگوں میں سب سے زیادہ یتیم ہوتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے آخر میں دہشت گردوں کی کاروائیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یتیموں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں۔ خیبر پختونخوا میں جہادی تنظیموں کی مسلح سرگرمیوں۔ بم دھماکوں۔ اور ان مسلح گروہوں کے خلاف پاک فوج کے مختلف آپریشنز۔ ضرب عضب۔ ردّ الفساد کے دوران بھی بچے بچیاں ماںکی آغوش، باپ کے سائے سے محروم ہوئے۔ تھر جیسے علاقوں میں بہت سے بچے کم غذا کے باعث اپنی مائوں کی گود سئ جدا ہو گئے۔

شاہد شمسی صاحب سے دیرینہ مراسم ہیں۔ پاکستان کے لیے درد ہمارا مشترک اثاثہ ہے۔ گزشتہ صدی سے ان سے ملاقاتیں رہی ہیں۔ نہ جانے کتنی بار ان کی آنکھوں میں انسانیت کے لیے اشک دیکھے ہیں۔ کووڈ 19 کے دنوں میں ان کی طرف سے بار بار دعوت مل رہی تھی کہ مری میں الخدمت فائونڈیشن کا ’آغوش‘ مرکز دیکھوں۔ اس بار اسلام آباد جانا ہوا تو ہم ان کے ساتھ مری کی طرف روانہ ہیں۔ برادر بزرگ ڈاکٹر خالد مسعود بھی ازراہِ کرم ہمراہ ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں کہ دیودار۔ شاہ بلوط اور صنوبر کے لانبے لانبے درختوں کے سائے میں آغوش کالج مری میں ہمارا مستقبل پرورش پارہا ہے۔ خوشگوار ماحول جس کے لئے خاندان ترستے ہیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈے مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ بچے ایسے حسین آس پاس میںعلم کی پیاس بجھارہے ہیں۔ شاہد شمسی بڑے فخر سے ہمیں ان بچوں کے کمرے دکھارہے ہیں۔ کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے۔ مقامی یا بین الاقوامی معیار کی اقامت۔ بستر۔ الماریاں۔ کچن۔ ڈائننگ روم۔ 54کنال۔ انتہائی مہنگی اراضی ایک درد مند پاکستانی نے عطیہ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت سے اسے نوازے۔ کالج کے پرنسپل اعظم خان بچوں میں بہت مقبول نظر آرہے ہیں۔ ہم نماز عصر کے لیے کالج کی مسجد میںموجود ہیں۔ چھٹی سے بارہویں تک کے بچے صفیں باندھے ہمارے ساتھ ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک۔ فراخ پیشانیاں ان کے عزم کی جھلک پیش کررہی ہیں۔ یہ ہمارا مستقبل ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن کا نصاب یہاں پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ صبح فجر کی نماز سے لے کر رات سونے تک کے معمولات کا تعین کیا جاچکا ہے۔ لائبریری میں کتابیں بھی ہیں۔ ڈیجیٹل شعبہ بھی۔ اساتذہ باقاعدہ تربیت یافتہ۔ الخدمت فائونڈیشن کے پاکستان بھر میں 18آغوش مراکز ہیں۔ یہاں ان مراکز کے بہترین طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے سب علاقوں کے منتخب دماغ۔ یہاں خوشگوار ماحول میںعلم کے حصول کے لیے آرہے ہیں۔ ایک بستر پر گجرات کے محمد طیب ادریس ایک کتاب کے مطالعے میں اکیلے ہی مصروف ہیں۔ ان سے سلام دعا ہوتی ہے۔ گجرات سے تعلق پر فخر ہے۔ گجرات کی وجہ شہرت سو ہنی مہیوال ہیں۔ مگر ان کا عزم ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر ایسا کارنامہ انجام دیں کہ آئندہ گجرات کی وجہ شہرت وہ ہوں۔ اس سال کا ہدف 210طلبہ کی تعلیم۔ رہائش اور تمام انتظامات ہیں۔ کھیلنے کے لیے میدان۔ لیبارٹریاں۔ سیکورٹی سسٹم۔ کمپیوٹر لیب۔ سب اعلیٰ معیار کے۔خوشی ہورہی ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے لیے فکرمند ہیں۔ مزید منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں۔ دوسرے مراکز بھی یقیناً اسی معیار کے ہوں گے۔ اور سہولتیں بھی ایسی ہی عمدہ۔پاکستان آرفن کیئر ہوم میں ایدھی ہومز۔ الخدمت۔ہیلپنگ ہینڈز۔ مسلم ایڈ۔ اسلامک ریلیف پاکستان۔ ریڈ فائونڈیشن۔ پاکستان سویٹ ہوم۔ ایس او ایس ولیج۔ حمرہ فائونڈیشن۔ سویٹ ہومز۔ مسلم ہینڈز۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ۔ تعمیر ملت فائونڈیشن۔ انجمن فیض اسلام۔ انجمن حمایت اسلام۔ صراط الجنت ٹرسٹ۔ حبیب فائونڈیشن شامل ہیں۔ یہ سب یتامیٰ کی کفالت کے ادارے ہیں جو آپ کے عطیات سے چلتے ہیں۔

آج جب آپ بھی یوم یتامیٰ منارہے ہوں تو ان اداروں ان کے منتظمین کارکنوں۔ اساتذہ کے لیے دل سے دعا کریں کہ خدائے بزرگ و برتر ان کی مساعی کو قبول کرے۔ یتامیٰ کی کفالت اپنے مستقبل کی حفاظت ہے۔ ان سب تنظیموں کا نصب العین یہ ہے کہ ہم نے انہیں ایک مستقبل دینا ہے۔ چاہے وہ کسی کے بھی بچے ہوں۔ ان یتیم خانوں کا معیار ایسا اعلیٰ ہے کہ اب ماں باپ والے بچے بھی ان کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین