• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان اور تحریکِ انصا ف نے عدمِ اعتماد کی تحریک کے آتے ہی، نہ صرف سازش کا ایک خود ساختہ بیانیہ گھڑلیا بلکہ مسلسل اسکاڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا جس سے ان ریاستی دانشوروں کو بہت تقویت مل رہی ہوگی جو عرصہ دراز سے کہتے رہے ہیں کہ یہ سرزمین جمہوریت کے لائق نہیں ہے۔ عمران خان کا موقف ہے کہ اس معاشرے میں حق کی وہ تنہا علامت ہیں اور دیانت و امانت کی واحد آواز ہیں۔ یہ فاشزم کی ایک شکل ہے جس میں وہ جمہوریت کو یکسر مسترد بھی نہیں کرتے اور ریاستی ڈھانچے کے اندر رہ کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور سماج میں ابہام پیدا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں فاشزم پورے سماج اور تہذیب و تمدن کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور کسی بھی قوم کی بقا ایسے فاشزم کے خلاف مشترکہ جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ہمارے ہاں ہی کیوں ہوتا ہے۔ کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ اس سماج کی ہیئت عرصہ داراز سے رومانویت کے زیر اثر رہی ہے جہاں ادارہ سازی کے بجائے ہیروز پیدا ہوتے ہیں جو عقل و شعور کی بجائے عشق کے نعروں کے ذریعے سماج میں اپنا شخصیتی کلٹ(Cult)پیدا کرتے ہیں۔ یوں وہ اصولوں سے بڑے ہو جاتے ہیںاور ادارہ سازی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ کھڑی کر دیتے ہیں۔ آج ہمارے ہاںجاگیر دار، قبائلی سردار اور سجادہ نشین اسی شخصیتی کلٹ کا ابھار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسی شخصیتی کلٹ کے حصار میں قومی اسمبلی کے اسپیکرنے یہ کہہ کر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹ کرانے سے انکار کر دیا کہ وہ تیس سال سے عمران خان کے دوست ہیں یعنی ان کے سامنے آئین کی کوئی حیثیت نہیں جس کی پاسداری کا انہوں نے حلف اٹھایا ہوا ہے۔

عمران خان او رتحریک انصاف کی ان چالاکیوں اور چالوں کو دیکھ کر فلسفے میں سو فسطائیوں کی تاویلیں اور حجتی طریقہ کار یاد آتا ہے جو طرح طرح کی چالوں، فریب اور اپنے مخاطب کو باتوں اور بحثوں میں نیچا دکھانے کیلئے ہر قسم کے حربے باخوبی استعمال کرنا جانتے تھے۔سوفسطائی اپنی تقریر کو طول دیتے رہتے تھے تاکہ اصل مسائل سے دھیان ہٹ جائے، بہت تیزی سے بات کرتے تھے یا بحث کو جاری رکھنے کیلئے وقت کی کمی کا عذر پیش کرتے رہتے تھے۔ انہیں اپنے مخالف کو غصہ دلانے میں مہارت حاصل تھی کیونکہ غصے میں آدمی دلیلوں کی منطقی درستی کی طرف کم ہی توجہ کرتا ہے۔ سوفسطائی کی بحث کا ایک ہی مقصد ہوتا تھا کہ اس کو ہر قیمت پر اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنا ہے اور اس تحریک کو جیتنا ہے۔سوفسطائی اکثر حقیقی رشتوں اور تعلق کو جھوٹی چیزوں سے بدل کر شعبدہ گر بن جاتے تھے۔ جیسا کہ عمران خان نے ایک خط اٹھا کر قوم کو دکھایا۔ اب اسکے ارد گرد ایسی فضول بحث شروع کر دی جسکا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں لیکن سماج میں ایک بیانیہ گھڑ دیا تاکہ لوگوں کی توجہ تحریک انصاف کے دور کی مہنگائی، کرپشن اور نا اہلی سے ہٹ جائے۔ تحریک انصاف کی طرح سوفسطائی بھی حقیقت کو مسخ کرنے کے ماہر تھے اور سمجھتے تھے کہ انصاف طاقتور کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ سوفسطائی کے برعکس جدلیات پسند ی کا مقالے، جو دلائل کے فلسفیانہ فن کے ذریعے سچائی کی تلاش کرتا ہے، کو ہر صورت میں اپنا لیں۔عمران خان اور تحریک انصاف سے کسی قسم کا انتقام نہ لیں اور دعا کریں کہ وہ سیاست میں رہ کر ارتقاپذیر ہوںورنہ آنے والے وقت میں جمہوریت اور ہمارا سماج مزید زوال پذیر ہو سکتا ہے۔ آج ہمارے سامنے نیلسن منڈیلا کی بہت بڑی مثال موجود ہے جسے 27سال تک سفید فام نے جیلوں میں بند رکھا لیکن اس نےجیل سے نکلنے کے بعد کسی سفید فام سے کوئی انتقام نہیں لیا۔ وہ سیاست دان نہیں تھا بلکہ اسٹیٹ مین تھااور ہمارے موجودہ حکمرانوں کو اپنے مخالفین کے خلاف نیب جیسے ہتھکنڈے ہر گزاستعمال نہیںکرنے چاہئیں۔آئین کی بالادستی کے پرچم کو ہر صورت میں اٹھائے رکھناچاہئے۔ الیکشن کمیشن کوہر صورت ایک آزاد ادارے کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے تاکہ آئندہ صاف اور شفاف الیکشن ممکن ہو سکیں۔ عام آدمی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے، اس کو فوری طور پر اس سے نکالا جائے اور معیشت کو جلد ازجلد اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ آئین کی پامالی کرنے والوں کا ہر صورت میں مواخذہ کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی شخص پاکستانی جمہوریت کو ریل کی پٹری سے نیچے نہ اتار سکے۔انتخابی اصلاحات کے ذریعے مزدوروں، کسانوں، خواتین اور اقلیتوں کی نمائندگی کو پارلیمنٹ میں یقینی بنایا جائے۔ گمشدہ افراد کی جلد از جلد بازیابی کرائی جائے۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے اضلاع کو جلد از جلد باقی ملک کے برابر لانے کی کاوشوں میں تیزی لائی جائے۔تمام حکومتی پارٹیاں صورتحال کی سنجیدگی کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے اندراتحاد پیدا کریں اور چھوٹی موٹی وزارتوں کی وجہ سے اپنے اتحاد کو کسی صورت میں نقصان نہ پہنچنے دیں اور جلد از جلد الیکشن ریفارمز کرواکر الیکشن کروائے جائیںتاکہ پاکستا ن کی جمہوریت ارتقاپذیر ہو سکے۔ آج ہمارے سیاستدانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی رویوں سے عوام کو وہ شعور دیں جسے حاصل کر کے وہ آئندہ ایسے تمام جنونی بیانیے مسترد کر دیں۔

تازہ ترین