• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں 10اپریل کا دِن انتہائی اہم تھا۔ لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی سیاسی صورت حال کسی بھی ’’حادثے‘‘ کا باعث بن سکتی تھی۔ ہٹ دھرمی، ضد اور آئین شکنی کے باعث جمہوری نظام کی بساط لپٹتے لپٹتے رہ گئی۔ مارشل لا کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ’’جاگتی‘‘ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے آئین و قانون کی پاسداری کرکے جمہوری نظام کو ’’ڈی ریل‘‘ ہونے سے بچا لیا۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی پریس کانفرنس میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اب کوئی مارشل لانہیں آئے گا۔ فوج کا ملکی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سپرپرائز خان نے شروع دن سے قوم کو سرپرائز دینے کے اعلانات کرکے ہلکان کر رکھا تھا۔ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آئی تو انہوں نے ہر روز ایک نیا سرپرائز دینے اور آخری گیند تک لڑنے کا اعلان کر کے سسپنس پیدا کر رکھا تھا لیکن وہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز آخری گیند تک کھیلے اور نہ ہی باوقار طریقے سے اقتدار چھوڑا بلکہ پورا مہینہ اپوزیشن کی دوڑیں لگوائے رکھیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے تحریک عدم اعتماد کو لٹکائے رکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی، 3اپریل 2022کو قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جانی تھی لیکن ڈپٹی اسپیکر نے تحریکِ عدم اعتماد کو آئین کے آرٹیکل 5کی آڑ لے کر نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا کیونکہ ریکویذیشن پر طلب کردہ اجلاس کو ملتوی کرنے کا اختیار اسپیکر کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ ادھر ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا اُدھر عمران خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس جاری کر کے ملک کو ایک سنگین بحران سے دوچار کر دیا۔ صدر مملکت نے بھی قومی اسمبلی تحلیل کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اتوار کا دن تھا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوری طور پر اس صورت حال کا از خود نوٹس لے لیا، 5روز مسلسل سماعت کے بعد قومی اسمبلی بحال کر دی اور اسپیکر کو 9اپریل 2022کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر ووٹنگ کرانے کا حکم جاری کر دیا۔ اسپیکر نے چار و ناچار قومی اسمبلی کا اجلاس تو بلا لیا لیکن رات 11بجے تک تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرنے کی راہ میں مختلف رکاوٹیں حائل کرتے رہے۔ وزیراعظم ہائوس کا ’’مکین‘‘ سپریم کورٹ کی حکم عدولی پر مصر رہا۔ سپریم کورٹ اب کی باردوسری بار رات کے پچھلے پہر کھلی، اِس دوران ’’قیدیوں کی وین‘‘ منگوا لی گئی، جاگتی عدلیہ نے دوسری بار ملک میں مارشل لا لگوانے کی کوشش ناکام بنا دی۔ سپریم کورٹ نے انتقالِ اقتدار میں کلیدی کردار ادا کرکے جمہوری عمل کو مضبوط کیا۔

میاں شہباز شریف اب پاکستان کے 23ویں وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم ہائوس میں سینئر صحافیوں کے اعزاز میں افطار ڈنر کا اہتمام کیا۔ مجھے کم و بیش دو سال بعد وزیراعظم ہائوس جانے کا اتفاق ہوا۔ وزیراعظم ہائوس کا وہی سبزہ زار تھا، ہر طرف ’’پٹونیا‘‘ کے پھول اپنی خوشبو بکھیر رہے تھے لیکن اس کا مکین بدل چکا تھا۔ دو روز قبل اسی ہائوس میں بیٹھ کر عمران خان سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد کی راہ میں حائل تھے، آج اس کا مکین شہباز شریف مہمانوں کو وزیراعظم کی حیثیت سے خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ میں وزیراعظم ہائوس میں وہ یونیورسٹی تلاش کرتا رہا جس کا وعدہ سابق وزیراعظم نے کیا تھا مگر مجھےکہیں اُس کا نام و نشان نظر نہ آیا۔ افطار ڈنر میں وزیراعظم شہباز شریف نے غیر رسمی گفتگو میں بتایا کہ سابق حکومت خزانہ خالیچھوڑ کر گئی ہے، مسائل کا پہاڑ ان کا منتظر ہے لیکن انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’ناممکن کا لفظ میری سیاسی ڈکشنری میں نہیں، سنگلاخ پہاڑ سر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں، ان شاء اللہ ہم پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں کامیاب رہیںگے‘‘۔ اس موقع پر ایک اخبار نویس نے ان کو لقمہ دیا کہ ’’عوامی جمہوریہ چین شہباز شریف کے طرزِ حکمرانی کو پنجاب اسپیڈ کہتا ہے‘‘ تو انہوں نے مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا کہ ’’جی ہاں! ان شاء اللہ بہت جلد عوام کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کے مسائل تیز رفتاری سے حل ہو رہے ہیں‘‘۔ میں نے ان سے پوچھا ’’میاں صاحب! بڑے میاں اور سینیٹر اسحٰق ڈار کب آرہے ہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ تو ڈاکٹروں نے کرنا ہے کہ میاں صاحب نے کب پاکستان واپس آنا ہے۔

وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی کے اراکین نے استعفے دینے کا اعلان کیا تھا تاحال پی ٹی آئی کے 123اراکین نے اجتماعی استعفے دیے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے ابھی تک استعفیٰ نہیں دیا لہٰذا قائم مقام اسپیکر کے اختیارات استعمال کرکے بیک جنبش قلم 123استعفے منظور کر دیے جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ 22اپریل تک بڑھا دی ہے۔ میں نے وزیراعظم سے پوچھا کہ کیا پی ٹی آئی کے مستعفی ہونے والے اراکین کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرا دیے جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ صورت حال واضح ہونے کےبعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

عمران خان نے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد فوری انتخابات کرانے کے لیے ایجی ٹیشن کے ذریعے دبائو بڑھانے کافیصلہ کیا ہے۔ پشاور کے جلسے سے اپنی تحریک کا آغاز بھی کر دیا ہے یہ جلسہ متاثر کن نہیں تھا فی الحال عمران خان کی سوئی عالمی سازش پر اٹکی ہوئی ہے لیکن فوج کے ترجمان نے عمران خان کے عالمی سازش کے بیانیے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ گیلپ سروے بھی آگیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے 57فیصد عوام عمران حکومت کے خاتمے پر خوش ہیں جب کہ 43فیصد ناخوش۔ عمران خان ایجی ٹیشن سے پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کو پریشان تو کر سکتے ہیں لیکن ایجی ٹیشن کا ماحول جلداپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا۔فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح کر دیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ 29نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے وہ مدتِ ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے۔ اس اعلان کے بعد اس موضوع پر بحث بند ہو جانی چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین