• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب کیا ہو سکتا ہے، بیانیہ بہت آگے نکل گیا اور فکری قافلہ ہے کہ سست روی کا شکار ہے، جب جذبات تیز گام پر سوار ہو جائیں اور تدبر محض جاگنے کے درپے ہو تو ایسے میں منزل تک بروقت پہنچ پانا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر سب گروہ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو گئے تو نظام ہی کی ہوا نکل جائے گی اور سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اب سب کے ہاتھ ملنے والی بات پر بھی دل نہیں ٹھہرتا کیونکہ ایسے گروہ بھی پنپ رہے ہیں جنہیں یہ فکر نہیں کہ سسٹم بھی ہار سکتا ہے بس انہیں اپنی ہار کا غصہ رہتا ہے۔ حالانکہ ہار تسلیم کرنا کھیل کا پہلا اصول ہے! تحریک انصاف کی منشایہ ہے، گر ہم نہیں تو سیاسی و جمہوری نظام بھی نہیں مطلوب۔ بس یہی ایک نکتہ ہے جہاں پر دِل چَھن سا جاتا ہے۔

نواز شریف کو جب آخری دفعہ اقتدار سے نکالا گیا تو اُن کے چند دوستوں کا مشورہ تھا کہ موٹروے سے گھر کا راستہ لیں اور کچھ نے جی ٹی روڈ کے استعمال کا کہا کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی بہترین مارکیٹنگ جی ٹی روڈ پر ہی ممکن تھی۔ بوجھل دل اور تھکے پاؤں والا راولپنڈی سے چلنے والا غیرمنظم سا قافلہ گوجرانوالہ پہنچتے پہنچتے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بن گیا اور اس کے بعد مریم نواز پہلی دفعہ شیش محل سے نکل کر عوام کے دل میں گھر کرنے والی احتجاجی لیڈر بن گئیں۔ چوہدری نثار جو مریم نواز کے حوالے سے جملہ کسا کرتا تھا، بچے صرف بچے ہوتے ہیں، وہ رہنماؤں کے طور پر قبول نہیں کیے جا سکتے۔ پھر کیا ہوا، سب جانتے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مریم ہی کی آواز عمران مخالف بیانیے میں سب سے زیادہ گونجتی تھی، شہباز شریف سے بھی زیادہ!

خیر، نواز شریف کو جب نکالا گیا تو انہوں نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کے علاوہ یہ بھی کہا کہ مجھ سے پارٹی صدارت بھی چھین لی گئی، میں اب نواز شریف ہی رہ گیا ہوں۔ کسی کو یاد ہے کہ نواز شریف کا اقتدار کے دنوں کا معروف جملہ کیا ہوتا تھا جو بہت مقبول ہوا؟ جی، وہ کہا کرتے تھے میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا مگر یہ جملہ انہیں جتنا مہنگا پڑا، اہلِ نظر خوب جانتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کے مثالی جملے: تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے۔ علاوہ بریں ایمپائر کی انگلی، پھر سونامی آ گئی ہے، بھی بہت مشہور ہوئے۔ سونامی کو بطورِ تشبیہ یا استعارہ یا سیاسی ٹریڈ مارک کے استعمال کرنا کسی بھی طرح درست نہیں تھا کیونکہ یہ وہ سمندری طوفان تھا جو انسانی تباہی سے عبارت تھا مگر خان کے کارکنان نے اسے بھی عارفانہ طور سے لیا۔ مگر عمران خان کو بلاول بھٹو کا پہلی اسمبلی تقریر میں سلیکٹڈ کہنا ایسا گہرا جا لگا کہ اس داغ کو دھونے کے چکر میں وہ ریجیکٹڈ ہو گئے۔ عمران خان اب سیاسی و انتظامی خفگیوں کے خاتمے کیلئے جو خط اٹھائے پھرتے ہیں اور وہ خط ان کے چاہنے والوں کیلئے خطِ مستقیم بھی بن چکا، کاش خان زمانہ حکومت میں خطِ افلاس سے نیچے بسنے والوں کا ذمہ ہی اٹھا لیتے، وہ جو کارڈ کھیلتے رہے اور سابق کارڈوں کے نام بدل بدل کر ڈسکارڈ کرتے رہے یا لنگر خانے بناتے رہے وہ سب ناکافی و نامناسب تھا۔ پھر بھی یہ شک نہیں جو خط انہوں نے اٹھا لیا ہے اسے ان کے لوگوں نے بھی سینے سے لگا لیا ہے، اب کوئی طیش میں آکر خط پھاڑ بھی ڈالے گا، قدم تو چوم ہی لیں گے اس تحریر کے ٹکڑے مگر سفارتی خط کم لیکن سیاسی خط زیادہ نے، قومی سطح کی ایسی چولیں ہلا دیں اور بین الاقوامی سطح پر وہ ہلچل مچادی کہ جھوٹ سر بازار سچ کی پوشاک پہنے ایسا پھر رہا ہے کہ لوگ بطورِ صادق اُس کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں۔ جب تحریکِ انصاف کے پاس کارکردگی کا کوئی محبت نامہ نہیں ہوگا تو وہ خط ہی کو خاطر میں لائیں گے نا۔

لیڈر کم از کم صدی کا سوچتا اور نصف صدی جدوجہد میں گزر جاتی ہے، سیاست دان صرف مختصر دورانیے کے اردگرد چکر کاٹتا ہے، ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمیں قیادت ایسی ملتی رہی جن کی وسعتِ نظر پانچ دس سال سے آگے نہ بڑھ سکی، وہ پریکٹیکل کم رہے اور باتونی زیادہ، انہوں نے کارکردگی کے بجائے بیانیہ فروشی کا بازار گرم رکھا، انہوں نے خارجی اور داخلی سطح پر ریاستوں کے بجائے سیاستدانوں سے تعلقات زیادہ رکھے، ہم ریگن، سینئر بش، کلنٹن، جونیئر بش، اوباما، ٹرمپ اور جو بائیڈن تک رہے، ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کی پوری فلاسفی کو پینٹاگون کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی، جب چاہا امریکی سہولتیں انجوائے کرلیں، جب چاہا لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے امریکہ مردہ باد ریلیاں نکال لیں لیکن اپنے دماغ سے خوف کا کیڑا نکالا نہ ہی حب الوطنی کا کیڑا پنپنے دیا۔ گر کسی کو یاد ہو تو پرویز مشرف کو جملوں کا چیف بھی کہا جاتا تھا اور وہ اکثر یہ لب کشائی کرتے تھے کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں۔ (تبھی تو آئین شکنی تک پہنچے)۔

زرداری صاحب کا بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگانامثبت تھا جسے پذیرائی بھی ملی پھر یہ بھی مقبول ہوا شریفوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ میں نے مشرف کو دروازہ دکھا کہ انہیں شیر بنایا ہے۔ مگر اینٹ سے اینٹ کھڑکانے کے بعد انہیں کافی عرصہ کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی اور اُن کا یہپبیان ارٹی پر بھاری بھی ثابت ہوا۔ اس لیے ذہن نشیں رہے کہ لیڈران کا طنز ہو، پروپیگنڈہ یا جان بچاؤ مہم کی پاداش میں نعرہ ہو، ہر بول کا پورا تول ہوتا ہے، صرف قومی ہی نہیں دنیا کے گلوبل ویلیج بن جانے کے بعد عالمی تول اور توڑ بھی ہوتا ہے! ریاست اور پارٹی کو جوابدہ ہونا بھیہوتا ہے۔ یہ جواب اور جواز کافی نہیں ہوتا کہ کوئی وزیر خارجہ اسمبلی میں اٹھ کر روایات کو پش پست ڈال کر اپنی آخری تقریر کرے تو کارکردگی یہ بتائے کہ میرا وزیراعظم بین الاقوامی اجلاس میں شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہنتا تھا اور آکسفورڈ سے پڑھ کر بھی اردو بولتا (قائدِاعظم کے نزدیک یہ اہم تھا؟) ۔دکھاوے یا پہناوے لیڈری کی پہچان نہیں، بےشک ریاستِ مدینہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔ ریاست کو خط کے خطرے سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، خطِ افلاس سے نیچے بسنے والوں کا خیال کرنا ہوگا۔ تدبر، صبر اور تشکر سے امیروں کے چونچلے اور ہیں لیکن پیٹ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں! سو بیانیہ اور عمل میں اعتدال اور مطابقت لازم ہے جاناں ورنہ اجڑی جمہوریت اکٹھی کرنا مشکل ہو جائے گا!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین