• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر اسے شاعرانہ تعلی نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اس بار بھی حوا کی ایک کمزور بیٹی انیتا تراب نے عدالت عظمی کے سامنے سرکاری افسران کی بے توقیری کا مقدمہ پیش کیا،جو حکمرانوں کی پسند ناپسند کا شکار ہوتے ہیں،اپنے فرائض حقیقی طور پر سر انجام نہیں دے سکتے ،معاشرے میں بگاڑ اپنی جگہ قحط الرجال بھی حقیقت ۔مگر ابھی سرکاری افسران میں ایسے لوگ موجود ہیں جو معاشرے کے کسی بھی باوقار شخص کی طرح قوم و ملک کا درد دل میں سموئے پھرتے ہیں۔عدالت عظمی نے انیتاتراب کیس میں یہ اصول واضح کردیا تھا کہ کسی بھی سرکاری افسر کو اس کی تعیناتی کی مقررہ مدت پوری کئے بغیر عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ اگر ایسا کرنا ناگزیر ہوا تو تحریری وجوہات بیان کرنا ہوں گی۔نگران حکومت کے کارناموں کی فہرست طویل سہی مگر یہ اعزاز بھی اسی کے حصہ میں آیا کہ من پسند مہمان تقرریا ں کرتی رہی۔تاآں کہ خواجہ آصف اس معاملے میں سپریم کورٹ میں معروض ہوئے ۔مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری نے خواجہ صاحب پر واضح کیا کہ کل اگر آپ حکومت میں آئے تو آپ بھی اس اصول پر کاربند ہونگے کہ ذاتی پسند پر سرکاری افسران کو تبدیل نہ کیا جائے۔اسلام آباد ائیرپورٹ کا مقدمہ زیر سماعت تھا کہ ایک فرض شناس اور دیانت دار افسر محمد علی گردیزی کو ان کے عہدے سے بغیر کوئی سمری بھیجے ہٹا دیا گیا۔اور قرعہ فال دوبارہ محترمہ نرگس سیٹھی کی جھولی میں آگرا۔گو یہ بطور سیکریٹری دفاع جبکہ سول ایوی ایشن وزارت دفاع کا حصہ تھا انہوں نے اس میں ایسی کونسی انقلابی تبدیلی کردی تھی۔یہ وہی سیکریٹری تھیں جنہوں نے سابقہ دور حکومت میں بطور پرنسپل سیکریٹری ٹو پرائم منسٹر سابقہ حکومت کے ہر غیر قانونی فیصلے پر عملدرآمد میں اہم کردار ادا کیا۔بہت ساری تقرریاں تو نرگس سیٹھی صاحبہ نے یہ کہہ کر کرائیں کہ ’یہ وزیراعظم کا زبانی حکم ہے‘جبکہ بطور پرنسپل سیکریٹری کئی سینئر افسران کو پھلانگ کر گریڈ 22 میں پروموشن حاصل کی۔جس پر معزز اعلی عدلیہ کو گریڈ 22 میں ترقی کے حوالے سے احکام وضع کرنا پڑا۔ پروموشن بورڈ کے ممبر کی حیثیت سے اپنے شوہر کو یہ کہہ کر ترقی دی کہ ’سلیم شریف آدمی ہیں‘حالانکہ اگر کسی کا کوئی عزیز پروموٹ ہورہاہو تو وہ قانونی طور پر ممبر کی حیثیت سے نہیں بیٹھ سکتا۔جبکہ نرگس سیٹھی نے سابقہ دور میں کوئی ایک بھی ایسی مثال قائم نہیں کی کہ حکومت کے ناجائز احکام پر عملدآمد کو رکواتیں۔حالانکہ سول سرونٹس کیلئے قائداعظم محمد علی جناح کا واضح پیغام موجو د ہے جو سول اکیڈمی میں پڑھائے جانے کے ساتھ ساتھ دفاتر کی دیواروں پر بھی چسپاں ہوتا ہے کہ ’ آپ ریاست کے ملازم ہیں اور عوام کے خادم ہیں۔آپ نے پولیٹیکل ماسٹرز نہیں بننا ۔ایسی صورتحال میں اے ۔کے لودھی جیسے معروف بیوروکریٹس کا خیال آتا ہے ،جب اے کے لودھی چیف سیکریٹری سندھ تھے تو اس وقت کے وزیر اعلی جام صادق نے سکھر کے انتخابات میں بعض امیدواروں کی حمایت نہ کرنے پر چیف سیکریٹری کو کہا کہ آپ ڈپٹی کمشنر سکھر کامران لاشاری کا ٹرانسفر کردیں۔ تو اے کے لودھی نے جام صادق پر واضح کیا کہ وہ ڈی سی کا ٹرانسفر نہیں کریں گے،بلکہ اگر حکومت کو ٹرانسفر مقصود ہے تو ان کا ٹرانسفر کردیا جائے۔اسی طر ح جب اے کے لودھی چیف سیکریٹری پنجاب بنے تو انہوں نے ایک میٹنگ میں منظور وٹو کو برملا کہہ دیا کہ اگر بطور صوبے کے چیف ایگزیکٹیو وزیراعلیٰ بھی مجھے کوئی غیر قانونی کا م کا کہیں گے تو میں ہر گز نہیں کروں گا،جس پر فورا ان کا ٹرانسفر کردیا گیا حالانکہ ابھی ان کی تعیناتی کو صرف چار ماہ ہوئے تھے۔ماضی میں ایماندار بیوروکریٹس جو قائد کے فرمان کی پاسداری کرتے رہے ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔موجودہ حکومت کے سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن شاہد رشید کوہلو میں ڈپٹی پولیٹیکل ایجنٹ تھے کہ چیف سکریٹری شیخ جمیل سے ان کے ٹرانسفر کا کہا گیا تو انہوں نے واضح کردیا کہ وہ کسی طور پر بھی ایماندار افسر کا تبادلہ نہیں کریں گے۔ایسے بیوروکریٹ بھی پاکستان کی تاریخ میں گزرے ہیں جن کا نام سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔عبداللہ صاحب چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا رہے ہیں۔جس وقت ان کی مدت ملازمت پوری ہوئی تو ذاتی قلم سے سرکاری سیاہی بھی نکال کر دوات میں ڈالی اور کسی دوست کے ساتھ گھر چلے گئے اور سرکاری گاڑی بھی استعمال نہ کی۔ اب ایسے افسران کہاں چلے گئے ہیں،تلاش کرو تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔مگر پھر خیال آتا ہے کہ اے ۔کے لودھی ،شیخ جمیل اور عبداللہ صاحب تو بے شک ریٹائر ہوچکے ہیں،مگر محمد علی گردیزی،شاہد رشید ،سمیع سعید ،راجہ احسن جیسے ایماندار افسران اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔جن کے دن کا آغاز صبح 7 بجے جبکہ اختتام رات 12 بجے ہوتا ہے۔ اور انہی افسران نے ایسی روایات بھی قائم کی ہیں کہ انتہائی جونئیر پوزیشن پر ہونے کے باوجود بھی غلط کاموں کو روکا۔بے نظیر بھٹو جب وزیراعظم تھیں ،تو ان کے ایک ڈپٹی سیکریٹری تھے،جو آج موجودہ حکومت کے وفاقی سیکریٹری ہیں ان کے ذریعے اس وقت کے سیکریٹری ماحولیات سلمان فاروقی نے وزارت ماحولیات کے کرتا دھرتا آصف زرداری کو امریکہ کے ایک دورے پر بھیجنے کیلئے وزیراعظم سے اجازت مانگی تو بے نظیر بھٹو نے انکار کردیا۔سلمان فاروقی نے دوبارہ خط لکھا اور کہا اہم معلومات ہیں،جس پر اس ڈپٹی سیکریٹری نے وزیراعظم پر واضح کیا کہ یہ حقائق سے ہٹ کر ہے اور بے نظیر بھٹو نے سمری پر لکھ دیاThis should be done through Fax.۔ اے کے لودھی کی جیتی جاگتی مثالیں تلاش کرنے سے مل جاتی ہیں۔راجہ احسن جن کی ایمانداری کا یہ عالم ہے کہ این آر او فائدہ مند افراد کے مشہور کیس میں ایف آئی اے کے سابقہ سزا یافتہ افسر نے غلط بیانی سے دوبارہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جسے اس مرد طرح دار نے روکا۔اس کرپٹ افسر نے راجہ احسن کے خلاف کیس کیا تو انہوں نے اپنا ذاتی پلاٹ بیچ کر وکیل کیا اور کیس لڑا۔۔مگر اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایماندار افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کرے ۔نرگس سیٹھی جیسے افسران کے بجائے محمد علی گردیزی جیسے پاک دامن افسران کو ترجیح دی جائے۔تاکہ قائد کے فرمان کی نافرمانی کرنے والے افسران پر واضح ہو کہ مستقبل میں دوبارہ کرپٹ مشق نہ کریں۔آج کے حکمرانوں کے لئے بھی میرے قائد ،محمد علی جناح کی مثالیں ہیں۔ایک مرتبہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے ایک دوست نے ڈپٹی کمشنر کراچی ہاشم رضا کو سفارش کرنے کی درخواست کی تو قائد اعظم نے سخت الفاظ میں جواب دیا۔”اگر آپ کو اس کے کسی فیصلے سے اختلاف ہے تو ہائی کورٹ میں اسے چیلنج کریں ،مجھے کوئی اختیار نہیں کہ میں ڈی سی کے معاملے میں مداخلت کروں“۔جہاں پر سول افسران کی ذمہ داری ہے کہ وہ قائد کے فرمان کی پاسداری کریں ،وہیں حکمرانو ں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ قائد کے اصولوں کے مطابق سیاست کو ترجیح دیں ۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں Indian Administrative Service کے افسران کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ،کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سول سرونٹس پر قوم کی انویسٹمنٹ ہوتی ہے اس لئے ان کا بہتر انداز میں استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ہمارے ہاں بھی اس امر کی ضرور ت ہے کہ قابل بیوروکریٹس کوریٹائر منٹ کے بعد بھی ملک و قوم کے بہتر مفاد میں اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں۔میاں نواز شریف کا اقدام قابل تعریف ہے کہ ناصر کھوسہ جیسے قابل افسر کو ریٹائر منٹ سے قبل ہی ورلڈ بینک میں اہم ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا گیا۔مگر کچھ ایماندار افسران جو اہل ارباب اختیار کے منظور نظر نہیں ہوتے انہیں یا تو کونے کھدروں میں پھینک دیا جاتا ہے یا پھر سیکریٹری ہو تو بغیر کسی وجہ کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔پس ثابت ہوا کہ ’نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارد‘…
تازہ ترین