• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی شہر میں آپریشن زور و شور سے جاری ہے۔ چھاپے، پولیس مقابلے، ناکہ بندیاں اور رینجرز کی دہشت گردوں اور شہر کا امن تباہ کرنے والوں کے ٹھکانوں کی مرحلہ وار تلاشیاں اور گرفتاریاں روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ ان کارروائیوں سے جہاں کچھ لوگ پریشان ہیں وہاں عوام کے ایک بہت بڑے طبقے نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ سکھ تو ابھی نہیں ملا مگر سانس ضرور مل گیا ہے۔ گرفتاری، احتجاج پھر رہائی کی خبریں میڈیا پر دیکھ اور سن کر فیض صاحب کا یہ شعر یاد آیا جو انہوں نے مئی 1954ء میں اپنی مشہور غزل ”ستم کی رسمیں بہت تھیں، لیکن نہ تھی تیری انجمن سے پہلے“ میں لکھا تھا۔ یہ غزل حیدرآباد جیل میں لکھی گئی تھی۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے لئے چیف جسٹس صاحب کی فل بنچ گزشتہ روز سے کراچی میں کام کررہی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے تجویز پیش کی ہے کہ کرفیو لگاکر گھر گھر تلاشی لی جائے اور اسلحہ تلاش کیا جائے۔ نہایت ہی مناسب تجویز ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے بھی اپنے کالموں میں کئی مرتبہ رات کا کرفیو لگانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا تھا کہ اس طرح کرفیو لگا کر دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کو تلاش کیا جائے اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جائے۔ آپریشن شروع ہونے کے بعد شہر کے حالات درست تو نہیں ہوئے مگر کافی حد تک سنبھل گئے ہیں اور نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی محسوس ہورہی ہے۔ اگر یہ آپریشن اسی طرح چلتا رہا تو مجھے امید ہے کہ بہت جلد رینجرز اور پولیس مل کر شہر کے حالات پر قابو پالیں گے۔ گرفتاریاں تو ہورہی ہیں اور ہو بھی جاتی ہیں مگر مسئلہ وہی ہے کہ گرفتار ہونے والوں کے خلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں ہے اور پولیس اپنے پیشہ ور گواہوں کو کیسوں میں ڈالتی ہے جوکہ ملزمان سے یا تو ڈرجاتے ہیں یا ان سے مل جاتے ہیں اور ہمیشہ نہیں تو اکثر ملزمان کے حق میں بیان دے کر اپنی دہاڑی بھی بنا لیتے ہیں اور جان بھی چھڑا لیتے ہیں۔ گزشتہ روز سندھ اسمبلی نے گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا ایک ایکٹ پاس کیا ہے۔ جس میں گواہوں کی شناخت بدل کر اور ویڈیو کے ذریعے ان کے بیانات لینے کے سلسلے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے اور ہم اس کی تائید کرتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شہر میں جہاں اکثر لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں ایسی صورت میں گواہ کی شناخت چھپانا بڑا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کراچی سے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں انتہائی مخلص ہے اور اکا دکا واقعات چھوڑ کر کافی حد تک حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اب اس آپریشن کے دوران شرپسند عناصر کی طرف سے آپریشن کو ناکام بنانے کے حربے بھی سامنے آنے کا امکان ہے جسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے واقعات پر اور ایسے شرپسند عناصر پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ دکانداروں اور تاجروں، صنعتکاروں کی تنظیمیں بھی اپنے طور پر ایسے عناصر کی حرکات و سکنات پر خصوصی نظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی نصیب نہ ہو۔ ملک کی معاشی حالت تمامتر کوششوں کے باوجود دگرگوں ہے۔ ڈالر کا ریٹ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ 10/سال پرانی کار بیچنے والا بھی 5ہزار روپے قیمت بڑھا دیتا ہے کیونکہ نئی کار کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل سمجھ دار افسر ڈالر میں رشوت لیتے ہیں کیونکہ روپے کی قیمت گرنے سے ان کی دولت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور سال بدلنے کے ساتھ ہی ان کا نصاب بھی بدل جاتا ہے ۔
آج ہی وزیر داخلہ کا بیان شائع ہوا ہے کہ کراچی آپریشن کا پہلا مرحلہ ختم ہونے والا ہے دوسرا اور تیسرا مرحلہ سخت ہوگا ملزموں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ بیان تو اچھا اور مضبوط ہے اور کافی طویل بھی ہے اب اللہ کرے کہ اس پر عمل بھی ہو کیونکہ ماضی کا تجربہ ہے کہ موصوف بیان دے کر پھر یا تو بدل لیتے ہیں یا پھر اس کی کوئی نئی وضاحت کرکے اس کے معنی بدل دیتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا ہے۔
میں سن رہا ہوں اسے، جو سنائی دیتا نہیں
میں دیکھتا ہوں اسے جو دکھائی دیتا نہیں
بہرحال یہ تو شاعر کا خیال ہے حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک آپریشن کامیاب ہے گرفتاریاں ہوئی ہیں اور ٹارگٹڈ آپریشن کے نتائج اچھے نکلے ہیں اب جب تک گرفتار شدہ ملزموں کو سزائیں نہیں ہوں گی اس وقت تک آپریشن کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ میرا ایک مرتبہ پھر مشورہ ہے کہ ضابطہ فوجداری میں کوئی ترمیم کرکے کریمنل ٹرائل کے قانون میں معمولی سے تبدیلی کی جائے اور اسے آسان بنادیا جائے تاکہ مقدمات کا فیصلہ جلد ہوسکے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بالکل سمری ٹرائیل کردیا جائے مگر ٹرائیل سمری کے نزدیک ہی ہو۔ اچھے جوڈیشل افسران اپنے اختیارات کو احتیاط سے اور انصاف سے استعمال کرنا جانتے ہیں۔ اس لئے کوئی نقصان ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ کراچی کے خصوصی حالات کے تحت قانون میں خصوصی ترامیم کی ضرورت ہے جس پر حکومت پہلی فرصت میں توجہ دے آخر میں ساحر لدھیانوی کا حسب حال اشعار پیش خدمت ہیں۔
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم
اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
تازہ ترین