• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ میں پاکستان کی مجموعی برآمدات کا حجم 23.30ارب ڈالر رہا ہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 22فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات میں ہوا ہے جس کا مجموعی حجم 14.26ارب ڈالر رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریبا 22فیصد زائد بنتا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے جاری اعدادو شمار کے مطابق برآمدات میں اضافے کا یہ سلسلہ گزشتہ ماہ بھی جاری رہا اور مارچ 2022میں 2.74ارب ڈالر کی مجموعی برآمدات ہوئی ہیں جو پچھلے سال کےاسی عرصے کے دوران ہونے والی برآمدات سے 16فیصد زائد ہیں۔ مارچ میں ہونے والی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا شیئر تقریباً 1.7ارب ڈالر رہا۔ یہ اعدادو شمار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کا حجم تقریباً 60فیصد سے زائد ہے۔ علاوہ ازیں ویلیو کے لحاظ سے ٹیکسٹائل گروپ میں نٹ وئیر کی برآمدات میں 33فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس میں 22فیصد، بیڈ وئیر میں 19فیصد، کاٹن کلاتھ میں 24فیصد، کاٹن یارن میں 41فیصد، ٹاولز میں 15فیصد، میڈاپس میں 10فیصد، آرٹ سلک اینڈ سنتھیٹک ٹیکسٹائل میں 31فیصد، مین میڈ فائبر میں سو فیصد اور کپاس کی برآمد میں 782فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے اچھی بات یہ ہے کہ روایتی مارکیٹس میں روایتی مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تیار ہونے والی غیر روایتی مصنوعات کی برآمدات میں بھی 32فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ نئی منڈیوں میں کی جانیوالی برآمدات کے حجم میں بھی 80فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں جاری کئے گئے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق امریکہ کو برآمدات میں 43فیصد، چین کو 25فیصد، نیدرلینڈز کو 12، سپین کو 29فیصد، بنگلہ دیش کو 70فیصد، تھائی لینڈ کو 278فیصد، سری لنکا کو 51فیصد، ملائیشیا کو 90فیصد او ر قازقستان کو برآمدات میں 229فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ اعداد وشمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے لحاظ سے عالمی مارکیٹ میں اپنا کھویا ہوا شیئر واپس حاصل کر لیا ہے اور اب اسے بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافے کی بڑی وجہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دیا گیا اسپیشل انرجی پیکیج، بہترایکسچینج ریٹ اور ریفنڈز کی آٹومیشن ہے۔ اگر ٹیکسٹائل انڈسٹری سے متعلق پالیسیوں کا تسلسل آئندہ بھی اسی طرح جاری رہتا ہے تو رواں مالی سال کے لیے طے کردہ 21ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات کا ہدف با آسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پر فوکس کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ سیکٹر ملک کی مجموعی لیبر میں سے 40فیصد کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ اس حوالے سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز پہلے ہی اپنی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے تقریباً پانچ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکے ہیں اور آنے والے وقت میں اس سرمایہ کاری میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ تاہم موجودہ حالات میں اگر پاکستان نے 21 ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے حکومت کو چند بڑی مشکلات پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ سرمائے کی قلت ہے کیونکہ اب بھی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے اربوں روپے کے ریفنڈز واجب الا دا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹرز کو شپنگ کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھی بہت سا درآمدی مال پورٹ پر پڑا ہے لیکن اسے بیرون ملک بھیجنے کے لیے کنٹینرز نہیں مل رہے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے خالی کنٹینرز کو پاکستان میں رکھنے کی زیادہ سے زیادہ مدت کو چھ ماہ سے بڑھا کر نو ماہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈسٹری کو بلا تعطل بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنانے اور لانگ ٹرم فکسڈ ٹیرف متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو درپیش انرجی بحران جلد سے جلد حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت انڈسٹری کو گیس کی سپلائی میں 50فیصد کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے برآمدی آرڈرز بروقت مکمل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر ہماری مصنوعات تیار کرنے کی لاگت کم ہو گی تب ہی عالمی مارکیٹ میں ہم دیگر ممالک کا مقابلہ کر سکیں گے۔

علاوہ ازیں دیگر کاروباری شعبوں میں معاشی سرگرمیوں کو جامد ہونے سے بچانے کے لیے شرح سود کو کم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود میں اچانک اتنا زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے کہ اس سے اوپر اٹھتی ہوئی معیشت دوبارہ نیچے کی طرف جانا شروع ہو گئی ہے۔ اسی طرح ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں استحکام بھی ضروری ہے تاکہ بیرون ملک سے خام مال کی خریداری اور ایکسپورٹ آرڈرز کے حصول کے لیے ایکسپورٹرز کو طویل المدت منصوبہ بندی کرنے کا موقع مل سکے۔ یہ اقدامات کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن کے باعث رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں تجارتی خسارے کا حجم 35.4ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ برآمدات کو ترقی دے کر اس خسارے پر قابو پایا جائے۔

تازہ ترین