• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان سے مذاکرات کے مسئلے پر اختیارکردہ حکمت عملی اور کراچی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے ٹارگٹڈ آپریشن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان کی ریاست ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہے اور ریاست کو اس بحران سے نکالنے کے لئے قومی سیاسی قیادت گہرے پانیوں میں اترنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ طالبان اور کراچی کے ایشوز پر پاکستان کے سیکورٹی اداروں بشمول مسلح افواج اور قومی سیاسی قیادت کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے لیکن اگر معروضی حقائق کا ماضی کے تناظر میں گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ایسی کوئی تصویر نہیں ابھرے گی جس کی وجہ سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوا جاسکے ۔ سیکورٹی اداروں اور قومی سیاسی قیادت کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، دونوں یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں امن قائم ہو ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس بحران کے اسباب اور اسے حل کرنے کے طریقہ کار پر حقیقی اتفاق رائے نہیں پایا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اختلافات کا بھی اظہار نہیں کیا جاتا لیکن تہہ در تہہ یہ اختلافات موجود ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے قومی سلامتی کے لئے پالیسی تشکیل دینے پر آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی) کا انعقاد کرایا ، جس میں سیکورٹی اداروں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ۔ اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ کو قومی اتفاق رائے سے تعین کیا جارہا ہے مگر اے پی سی میں سیاسی رہنماوٴں نے بعض حقائق بیان کرنے سے جس طرح احتراز کیا اور طالبان کے مسئلے پر ماضی کے شدید اختلافات کے باوجود جس طرح حیرت انگیز اتفاق رائے کا مظاہرہ کیا ، اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مذکورہ اے پی سی محض ضابطے کی کارروائی تھی ۔ اسی طرح میاں نواز شریف نے کراچی میں بھی اسٹیک ہولڈرز سے طویل اجلاس منعقد کئے اور ان سے بھی بظاہر یہی تاثر ملا کہ کراچی میں رینجرز کی قیادت میں ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ سیاسی قیادت اور سول سوسائٹی کے اتفاق رائے سے کیا گیا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ مشاورتی اجلاسوں سے پہلے ہی یہ فیصلہ ہوچکا تھا ۔ وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ سندھ یہ بیانات دے چکے تھے کہ رینجرز کی قیادت میں آپریشن ہو گا ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے امن وامان سے متعلق امور ایک وفاقی ادارے کو سونپ دیئے اور ان پر اپنے تحفظات کا اظہار نہیں کیا حالانکہ اس بات پر سندھ حکومت کو پہلے شدید اعتراضات تھے ۔ سندھ میں سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی دیگر سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے بھی اس معاملے پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ اس کا مطلب شاید یہی لیا جا سکتا ہے کہ کراچی سمیت پورے ملک میں امن قائم کرنے کے لئے بعض قوتوں کی طرف سے جو پیشرفت ہوئی ہے، اس میں قومی سیاسی قیادت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ ہر ممکن تعاون کرے گی تاکہ بعد ازاں کوئی اسے مورد الزام نہ ٹھہرا سکے مگر کچھ معاملات میں اس کی غیر معمولی لچک اس خیال کو تقویت پہنچاتی ہے کہ وہ امن وامان قائم کرنے کے انتہائی پیچیدہ مسئلے میں زیادہ نہیں الجھنا چاہتی ہے اور وہ گہرے پانیوں میں اترنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
مایوسی کی بات بھی نہیں ہے لیکن پاکستان کو دہشت گردی نے جس بحران میں دھکیل دیا ہے ، اس سے نکلنے کے لئے بہت سی باتوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔ اب یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ قومی سیاسی قیادت نے ملک کے سیکورٹی اداروں کو امن قائم کرنے کے لئے مینڈیٹ دے دیا ہے لیکن بظاہر ساری ذمہ داری پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے اپنے سر لے لی ہے۔ خدانخواستہ ملک میں امن قائم نہیں ہوتا ہے تو مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور حکومت پر سارا ملبہ گرے گا ۔ اس نے نہ صرف طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی کارروائیاں روکنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے بلکہ کراچی جیسے سیاسی طور پر حساس اور دہشت گردی سے تباہ حال شہر میں بھی امن قائم کرنے کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے، یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ منتخب جمہوری حکومتوں کو ایسی ذمہ داریاں قبول کرنی چاہئیں لیکن ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے حکومتوں کی پالیسیاں بھی اپنی ہونی چاہئیں۔
اے پی سی نے اگرچہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا تھا لیکن اس حوالے سے حکومت اور دیگر اداروں کی حکمت عملی ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے اور یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اس معاملے پر ابہام اور کنفیوژن جاری رہے گا۔ یہ کوئی اچھا تاثر نہیں ہے ۔ کبھی فاٹا سے فوج نکالنے کی بات کی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ فوج نہیں نکالی جائے گی ۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت ہورہی ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے ۔ کبھی کبھی یہ عندیہ بھی دیا جاتا ہے کہ طالبان سمیت انتہا پسند گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جا سکتی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ قومیں ایسے بحرانوں میں اپنے آپشنز کھلے رکھتی ہیں لیکن ان آپشنز پر مشاورت کا بھی وسیع تر عمل جاری رہتا ہے ، جو پاکستان میں مفقود ہے ۔ یہ بات تشویشناک ہے ۔ اسی طرح کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کا بھی رخ آہستہ آہستہ متعین ہورہا ہے، جس سے لوگوں کے پہلے والے خدشات کو تقویت مل رہی ہے ۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے لوگوں سے پریس کانفرنسوں کے دوران صحافی یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ حکومت مصلحت کا شکار کیوں ہوگئی ہے ؟ اس طرح کراچی آپریشن سے لوگوں نے جو امیدیں وابستہ کی تھیں، وہ ماند پڑنے لگی ہیں ۔
سیاسی قوتوں کی اگرچہ سے یہ خواہش ہے کہ امن قائم ہو لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ امن قائم کرنے کی دی گئی پالیسی کی خاموشی سے حمایت کر رہی ہیں اور اس بات کا انتظار کررہی ہیں کہ اس پالیسی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اگرچہ ساری ذمہ داری ان سیاسی قوتوں پر عائد ہوتی ہے لیکن وہ معاملات میں بہت گہرائی تک جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں جمہوری حکومتوں نے کراچی سمیت پورے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے جو پالیسیاں بنائی تھیں ان پر عملدرآمد کی انہیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑی اور بعض سیاسی جماعتیں تو خوفناک حد تک دہشت گردی کا شکار ہوئیں ۔ اس لئے وہ اس معاملے میں اپنے آپ کو زیادہ ملوث نہیں کرنا چاہتی ہیں ۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی جس طرح پروان چڑھی اور اس کے خلاف ریاست نے جس طرح مزاحمت نہیں دی ، اس طرح کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی ہے ۔ پاکستان کے عوام کی اجتماعی دانش اس معاملے کا مکمل ادراک رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قیام امن سے متعلق زیادہ پُرامید نہیں ہے۔ طالبان کے معاملے پر اب تک جو اپروچ سامنے آئی ہے یا کراچی میں دہشت گردی سے نمٹنے کی اب تک کی حکمت عملی سمجھ میں آتی ہے، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جن قوتوں نے امن قائم کرنے کے لئے پاکستان کے لوگوں کی امیدوں کو بھڑکایا ہے، وہ معاملات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے ہیں یا پہنچنا نہیں چاہتے ہیں۔ پاکستان کو اس بحران سے نکالنا ہے تو یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیا جائے ، پرانی صف بندیاں توڑی جائیں ، دہشت گردی سے وابستہ مخصوص مفادات پر کاری ضرب لگائی جائے اور 1947ء سے بننے والی ہیئت مقتدریٰ کی سوچ سے بغاوت کی جائے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک کی حقیقی قومی جمہوری قوتیں گہرے پانیوں میں اترنے کے لئے تیار نہیں ہوں گی۔
تازہ ترین