• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راقم اپنی قلبی کیفیت کو معنی کی زبان دینے سے عاجز ہے لیکن یہ قیاس کرتے ہوئے کہ یہی کیفیت تمام اہل وطن کی ہو سکتی ہے، شاید ضبط تحریر میں لائے جانے والے حروف مدعا واضح کرنے کیلئے کافی ٹھہر سکیں۔ بات سادہ سی ہے لیکن حالات کے جبر نے اسے گنجلک اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مسائل سے دوچار اور بھی ممالک ہوں گے لیکن وہاں اس طرح بے مقصد صبح شام نہیں ہوتے ہوں گے جس طرح یہاں ہیں۔ ہماری مثال اس جواری کی سی ہے جو اپنے آباؤ اجداد کی کمائی کو لٹانے پر تلا ہوا ہے۔ ایٹمی قوت بننا اپنی جگہ شاہکار کارنامہ سہی لیکن ایمانداری سے بتایا جائے کہ ہم نے 6 عشروں سے زائد عرصے میں کیا کھویا کیا پایا!؟ ہم دیگر ممالک سے موازنہ کیا کریں کہ ہم سے علیحدہ ہونے والا بنگلہ دیش بھی آج ترقی اور امن میں اس قدر آگے ہے کہ ہمارے سرمایہ کار وہاں فیکٹریاں لگانے کیلئے دوڑ پڑے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ وہ جمہوریت جس نے ایک جہان بدل کر رکھ دیا ہے، ہمارے ہاں جب نہیں ہوتی تو ہم اسے تلاش کرتے ہیں اور جب مل جائے تو اس میں اپنے آپ کو تلاش کرتے ہیں۔ بس یہی قیام پاکستان تا امروز ہو رہا ہے۔ عائشہ مسعود نے صورتحال کی کیا خوبصورت تصویر کشی کی ہے
وہ مل جائے تو ہنس لینا، بچھڑ جائے تو رو لینا
ہمارے روز و شب میں اب یہی دو گوشوارے ہیں
وقت کا نوحہ یہ نہیں ہے کہ ہم بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اب تک یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے! ضیاء الحق صاحب کے دور میں خان عبدالولی خان صاحب عبدالحمید چھاپرا کی دعوت پر کراچی پریس کلب آئے تھے۔ ایک نوجوان صحافی نے پوچھا خان صاحب ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ ولی خان صاحب کا جواب تھا ”برخوردار ڈرائیور (ضیاء صاحب) کو نہیں پتہ کہ ہم کدھر جا رہے ہیں، میں اور آپ تو سواری ہیں…!“ آج بھی ہمارا معاملہ گزشتہ سے پیوستہ ہے۔ ہم ہنوز یہ جان نہیں پائے ہیں کہ ہم آخر چاہتے کیا ہیں؟ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ہر ایک کی چاہت کو سامنے رکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ ہم اور کچھ نہیں، بس حالات کو ”جوں کا توں“ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے اختیار مندوں نے خواہشات کے ایسے عجیب عجیب ملغوبے تیار کر رکھے ہیں کہ جب وہ باہم متصادم عوام کے سامنے آتے ہیں تو عوام ورطہ حیرت میں مبتلا خود سے یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم آخر چاہتے کیا ہیں۔ ہماری دو عملی کا روشن چہرہ ایک جہان پر عیاں ہے۔ ہم ہمیشہ یہ رونا روتے رہتے ہیں کہ ہر شعبے کی سربراہی پر نا اہل اور سفارشی براجمان ہیں لیکن اتفاق سے اگر کوئی اہل اور فرض شناس افسر کسی شعبے یا ادارے کا سربراہ بن جائے تو یہ ہم ہی ہوتے ہیں جو اسے ناکام بنانے کا بیڑہ اٹھا لیتے ہیں۔ اب کراچی میں امن و امان کے مسئلے کو ہی لے لیجئے۔ کراچی تا خیبر اور بولان تا چترال ہر محب وطن کی خواہش یہی ہے کہ یہاں امن ہو… لیکن جب امن کیلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو ہم ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر اس میں کیڑے نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ عام مطالبہ تھا کہ کراچی پولیس کا سربراہ ایک ایسا فرض شناس پولیس افسر ہو جو فرض کے ماسوا ہر امر مانع سے منہ موڑے ہوئے قیام امن کا کارنامہ سر انجام دے۔ اب جب شاہد حیات کی صورت میں کراچی پولیس کو ایک ایسا ہی فرض شناس آفیسر میسر آیا ہے تو درپردہ کچھ اور ”کارروائیاں“ شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ تسلیم کہ طالبان سے معاملات زیادہ گمبھیر ہیں لیکن وہاں ایک سہولت یہ دستیاب ہے کہ مولانا سمیع الحق صاحب کی صورت میں ان کے استاد اور جے یو آئی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی شکل میں ان کے ضامن موجود ہیں، لیکن کراچی نے بھی کیا قسمت پائی ہے کہ یہاں سب ہی ”استاد“ ہیں اور ضامن بھی کوئی دستیاب نہیں… ایسے میں ایک ایسے افسر کا بروئے کار آنا ہی ناگزیر ہے جو تمام سوالوں کا جواب آپ ہو اور جاننے والے بتاتے ہیں کہ شاہد حیات صاحب ہی میں کچھ کر گزرنے کی تڑپ کے ساتھ وہ جوہر بھی ہے جو ایسے حالات میں درکار ہوتی ہے۔
مجھے شاہد حیات صاحب کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے معروف وکیل اور سابق وفاقی وزیر میر نواز خان مروت نے جب ان کے خانوادے کی خوبیاں بیان کرنا شروع کیں تو میں نے مودبانہ گزارش کی کہ میں تو صرف یہ جاننے کیلئے خواستگار ہوں کہ وہ پہاڑ جیسے کراچی کے مسئلے کیلئے خود کس قدر موزوں ثابت ہو سکتے ہیں۔ جہاندیدہ بزرگ مروت صاحب نے فرمایا کہ پختونوں میں خاندانی پس منظر کسی معرکے کو سر کرنے کیلئے بنیادی علامت سمجھی جاتی ہے۔ مال و دولت اور جاہ و جلال کی تمنا پر غیرت و وقار کی آرزو اس وقت حاوی ہوتی ہے جب ایک شخص ہر طرح کی حرص سے آزاد ہو۔ شاہد حیات کی آنکھوں کی چمک آپ کو بتا دے گی کہ وہ لالچ و مفاد کیلئے نہیں، محکمہ پولیس کی لاج کیلئے بیقرار ہے۔ محکمہ پولیس کے ایک دیرینہ دوست نے بتایا کہ دباؤ و رشوت سے کوئی مجھے تو خرید لے گا شاہد حیات کو نہیں، ان سطور میں کسی کی قصیدہ خوانی مقصود نہیں اور راقم بھی اہل وطن کی طرح تھانوں کو عقوبت خانے بنانے والے پولیس کی کالی بھیڑوں کا نقاد ہے، یہاں عرض صرف اتنی سی ہے کہ کراچی پولیس کے سربراہ کو قریب سے جاننے والوں نے جو کچھ بتایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر موقع دیا گیا تو شاہد حیات قیام امن کیلئے یادگار اور پائیدار کردار ادا کر سکتا ہے۔
متذکرہ گواہیوں کے باوصف لانے والوں نے بھی یقیناً ان میں کچھ دیکھا ہی ہو گا لیکن جو ٹانگیں کھینچنے کے مرض میں مبتلا ہیں ان کے بیمار ذہن کے لشکارے بھی سوانیزے پر ہیں۔ آپ نے حامد میر صاحب کا وہ پروگرام ملاحظہ کیا ہو گا جس میں جب میزبان شاہد حیات صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ندیم ہاشمی کو رہا کیا جا سکتا ہے تو جواباً جب وہ کہتے ہیں اس سلسلے میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار ہے اور اگر کوئی ثبوت نہ ہوا تو ہم یقیناً انہیں رہا کر دیں گے۔ ہم نے ان کے خلاف غلط ثبوت نہیں گھڑے ہیں۔ وہ جس وقت مستقبل کا صیغہ استعمال کر رہے تھے تو انہیں حامد میر صاحب اطلاع دیتے ہیں کہ ندیم ہاشمی کورہا کیا جا چکا ہے۔ اس وقت شاہد حیات صاحب جیو کے توسط سے ملک کی ایک بڑی آبادی بالخصوص اہل کراچی کے روبرو تھے۔ یہ تو ان کی فرض شناسی و دیانت تھی کہ ابتداء ہی میں انہوں نے سوال کا اس طرح ٹھوس جواب دیا کہ بعد میں ان کی ”لا علمی“ اس متوازن جواب تلے دب کر رہ گئی اور پھر بعدازاں حامد میر صاحب بھی مہمان کی وضاحت کو اس کمال ہنرمندی اور نیک جذبے سے دیکھنے والوں کے سامنے لائے کہ جس سے اس مہم کا بروقت سدباب ہوا جس کے ذریعے عوام کو یہ باور کرایا جاتا کہ پولیس کا ایسا لا علم سربراہ کیونکر اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا اہل ہے۔یہ درست ہے کہ انہی لمحات میں جب کراچی پولیس کے چیف جیو کے پروگرام میں تھے۔ ندیم ہاشمی صاحب کو رہا کیا گیا، اس لئے انہیں اطلاع نہیں مل سکی۔ یہ موقف بھی بجا کہ چونکہ انہیں بنا ثبوت کے گرفتار کیا گیا تھا لہٰذا پولیس نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں رہا کیا۔ بحث کا مرکزی نقطہ مگر یہ نہیں کہ کیوں رہا کیا گیا بلکہ یہ خیال ہے کہ ایک اہم شخصیت کی رہائی سے قبل یہ ضروری کیوں نہیں سمجھا گیا کہ پولیس سربراہ کے علم میں یہ بات لائی جائے؟ یہ درست ہے کہ یہ متعلقہ تھانے کا قانونی اختیار تھا لیکن کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ رہا کئے جانے سے قبل پولیس سربراہ کے علم میں یہ اہم واقعہ لایا جاتا! اگر یہ محض اتفاق تھا تو اس سے یہ سوچ کر درگزر کیا جا سکتا ہے کہ وطن عزیز میں اس طرح کے اتفاقات تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور اگر اس سے یہ باور کرانا مقصود تھا کہ اصل اختیارات ان کے پاس نہیں جو پولیس کی وردی زیب تن کئے ہوئے ہیں بلکہ ”قوت کا منبع“ کہیں اور ہے تو پھر ایسے لوگوں کو جو ہر الزام پولیس کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے نہیں تھکے، ذرا اپنی اداؤں پر بھی غور کر لینا چاہئے۔
تازہ ترین