• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک جرمن دوست نے اپنے بیٹے کی شادی میں مدعو کیا جو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے130کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے صنعتی شہر کے ہوٹل میں منعقد تھی۔ راقم اس دعوت میں شریک ہوا۔ مجھے اس سے قبل کبھی یورپین ممالک میں شادی میں شرکت کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ مہمانوں کو جو باہر سے آئے ہوئے تھے ان کو ان کے ہوٹلوں سے لانے اور پہنچانے کا انتظام تھا۔ تقریب میں صرف جرمن موسیقی اور ہلکے پھلکے گانے بجتے رہے پھر جرمن زبان میں ہی کھانے کی دعوت کا اعلان ہوا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایک کر کے مہمان مع بیگمات پلیٹوں کی طرف گئے ، پلیٹیں ہاتھ میں اُٹھائیں اور کھانے کے بوفے ٹیبل پر قطار میں لگ گئے۔ پہلی ٹیبل پر مختلف قسم کی سالادیں ، پنیر ، مکھن ، بریڈ اور سلائس تھے ۔ حسب ضرورت انہوں نے پلیٹوں میں ڈالے پھر کھانے کی ٹیبل کی طرف بڑھے ۔ 2قسم کے گوشت ، ایک سبزی اور ایک ڈش مچھلی کی تھیں ۔ سبزی اور چاول ویجیٹیرین مہمانوں کیلئے ، مچھلی اور چاول مسلمانوں کے لئے ، اکثریت کیلئے دیگر گوشت کا بندوبست تھا ۔ مہمان یہ سامان لے کر واپس اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ کر کھاتے رہے جس کو مزید چاہئے تھا وہ بعد میں جا کر سلیقے سے اُتنا نکالتے جتنا وہ کھا سکتے تھے ، کچھ ضائع نہیں کرتے تھے پھر آخر میں وہ میٹھے کی ٹیبل پر جا کر دوسری پلیٹوں میں اپنے من پسند میٹھے پھل ، کیک ، آئسکریم اور آئسکریم کسٹرڈ لے کر اسی طرح دوسری بار قطار میں لگ کر لیتے رہے۔ ٹھیک 8:30بجے تک تمام مہمان کھانے اور پینے سے فارغ ہو کر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے پھر دولہا دولہن اپنے روایتی لباس میں تشریف لائے ، تالیوں کی گونج میں ان کا استقبال ہوا پھر دیکھا دیکھی مہمانوں نے ہال کے کونے والے خالی حصہ پر کراکری کی پلیٹیں ، برتن پھینکنے شروع کر دیئے اور دولہا دولہن دونوں مل کر جھاڑوسے سمیٹ کر ایک کنارے پر ٹوٹے ہوئے ٹکڑے جمع کرتے رہے یہاں وہ اپنے گھروں سے بھی پرانی کراکری لائے تھے اور ٹیبل پر بھی پرانی استعمال شدہ کراکری بھی رکھی ہوئی تھی وہ سب اٹھا کر زمین پر توڑتے رہے ۔ یہ جرمنی کی اپنی تخلیق تھی جو پہلی مرتبہ راقم نے دیکھی اس طرح مہمانوں کی پرانی کراکری بھی نمٹ گئی اور ایک طرح کی ان کی رسم بھی ادا ہو گئی جو بہت دلچسپ تھی ۔ بے چارے میاں بیوی دونوں مل کر آدھے گھنٹے تک ان ٹوٹے ٹکڑوں کو سمیٹ سمیٹ کر خاصے تھک چکے تھے پھر یہ رسم ختم ہوئی تو تالیوں کی گونج میں دولہا دولہن جن کی عمریں دونوں کی تقریباً ایک ہی سی 30اکتیس سال لگ رہی تھی ۔ خوش خوش مہمانوں سے رخصت ہوئے ٹھیک 9:00بجے ان کے والدین جنہوں نے مہمانوں کا استقبال کیا تھا اب سب کو رخصت کیا ، گویا 9:00بجے مہمان رخصت ہو رہے تھے اور ہم اکیلے پاکستانی، چند بھارتی اور چند مسلمان عربی اس ڈسپلن اور وقت کی پابندی کی تعریف کر رہے تھے ۔ اس سے قبل جس تقریب میں سعودی عرب، یو اے ای ، بھارت اور ہمارے پاکستان میں اول تو شادیاں 10:00بجے رات سے پہلے شروع ہی نہیں ہوتیں ، پھر بغیر قطار ہڑبونگ میں کھانا لیا جاتا ہے اور غیر ضروری پلیٹیں بھر بھر کر کھانا نکال کر ضائع کیا جاتا ہے اور رات گئے تک تقریباً آدھی رات یعنی 12:00تک تقریب کا بے ہنگم طریقے سے تقریب کا اختتام ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں علاوہ پنجاب میں جہاں صرف ایک چاول ، ایک گوشت کری اور ایک میٹھا ، چائے ، کولڈ ڈرنک پیش کئے جاتے ہیں ۔ دیگر تینوں صوبوں میں حسب حیثیت 10بارہ ڈشیں تو عام ہوتی ہیں وقت کی پابندی بھی صرف پنجاب میں نظر آتی ہے وہ بھی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سخت روایتی پالیسیوں کی وجہ سے عمل میں آتی ہے ۔ اب ون ڈش کا اعلان تو ہمارے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ صاحب نے بھی فرما دیا ہے مگر ان کی انتظامیہ پر کوئی گرفت گذشتہ 5سالوں میں دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ اس کی آڑ میں شادی ہالوں سے رشوت کا ایک اوردروازہ ضرور کھل سکتا ہے جو ماضی میں بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے۔
اتفاق سے دوسرے دن جرمنی کے دوسرے نزدیکی شہر میں جو بلیک فارسٹ کے نام سے مشہور ہے ایک مشینی نمائش میں بھی مدعو تھا ۔ نئی نئی اقسام کی مشینیں ، چھوٹی سے لے کر بڑی بڑی آٹو میٹک مشینیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اتنی جدید مشین جو ایک منٹ میں 100سے لیکر 700بوتلیں ، ٹیوب ، جار ، انجکشن بھرنے کی صلاحیتیں رکھتی تھیں۔اپنے سامنے عملی طورپر بھرتے دیکھ کر احساس ہوا کہ دنیا کہاں سے کہاں جا چکی ہے ۔ صنعتی انقلاب یورپ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بر پا کر چکا ہے ، صنعتی ترقیاں اپنے عروج پر ہیں ۔ یورپ کے 30تیس ممالک اپنی اپنی کرنسیوں ، ملکی حدودوں کو ختم کر کے ایک جان ہو چکے ہیں جن کی تہذیبیں ، زبانیں ، تمدن ، مذہب الگ الگ ہیں مگر وہ سب مل کر اپنی اپنی معیشتیں کہاں سے کہاں پہنچا چکے ہیں مگر افسوس 57سے زائد مسلم ممالک جن کے پاس دنیا کی 80فیصد توانائی کی حامل صلاحیتیں ، تیل ، گیس ، ڈیزل ، کوئلہ اور معدنیات کے ہوتے ہوئے پسماندہ ہیں۔ تیسرے دن جب جرمنی سے واپس جہاز میں روانگی ہوئی تو خبروں سے معلوم ہوا کہ طالبان نے ہمارے فوجی قافلہ کو خود کار بم سے اڑا دیا اور ایک میجر جنرل سمیت 5فوجیوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ طالبان کو رہا کرنے کا اور بات چیت آگے بڑھانے کا تحفہ ہے ؟انا للہ و انا الیہ راجعون۔
تازہ ترین