• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 1996ء کی بات ہے، عمران خان کی کئی سال کی محنت کے نتیجے میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کی تعمیر مکمل ہوئی اور یہاں کینسر کے مریضوں کا علاج شروع کر دیا گیا۔ ابھی اس ہاسپٹل میں کام شروع ہوئے زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایک دن ہاسپٹل کی او پی ڈی میں بم دھماکہ ہو گیا جس میں چھ افراد موقع پر مارے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور طالبان کی دشمنی شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر ہمیں افغان طالبان کی خوبیاں گنوایا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ کس طرح ایک گیس پائپ لائن کرغیزستان سے براستہ افغانستان ہمارے ملک میں پہنچے گی اور طالبان اس گیس پائپ لائن کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ ایک دفعہ میں نے اپنے کالم میں افغان طالبان کی طرف سے قندھار میں لڑکیوں کے سکول بند کرنے کے خلاف کچھ لکھ دیا تو وزمیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے دو گھنٹے تک مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ طالبان نے لڑکیوں کے سکول اس لئے بند نہیں کئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں بلکہ اس لئے بند کئے ہیں کہ ان سکولوں میں پڑھانے والی اکثر استانیاں کمیونسٹ ہیں اور سکولوں میں تعلیم دینے کی بجائے سیاسی نظریات کا پرچار کرتی ہیں جس دن شوکت خانم ہاسپٹل میں دھماکہ ہوا اسی شام نصیر اللہ بابر صاحب نے مجھے اپنے گھر بلایا اور کہا کہ خیال رکھنا اس دھماکے کے ذریعے عمران خان کو ہماری حکومت کے خلاف ا ستعمال کرنے کی کوشش ہو گی تو اپنے دوست عمران خان کو بتا دو کہ ہمارا اس دھماکے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے انہیں معذرت کی اور کہا کہ نہ میں آپ کا ترجمان ہوں نہ عمران خان کا۔ ترجمان ہوں اگر آپ نے کوئی وضاحت کرنی ہے تو خود عمران خان سے رابطہ کریں۔ اگلے ہی دن وزیراعظم بے نظیر بھٹو شوکت خانم ہاسپٹل چلی گئیں اور بم دھماکے پر افسوس کا اظہار کیا۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ جونیجو گروپ کی مخلوط قائم حکومت تھی جس میں کالعدم سپاہ صحابہ بھی شامل تھی۔ وزیراعظم صاحبہ نے گورنر ہاؤس لاہور میں پنجاب کے وزیراعلیٰ اور آئی جی کو بلایا اور کہا کہ شوکت خانم ہاسپٹل میں بم دھماکے کا جلد از جلد سراغ لگایا جائے۔ کچھ دنوں کے بعد پولیس نے لاہور کے ایک سرحدی گاؤں کے نوجوان اسحاق میراثی کو گرفتار کر لیا اور چند دن کی تفتیش کے بعد اس پورے نیٹ ورک کا سراغ لگا لیا جس کے ذریعے ہاسپٹل میں دھماکہ کیا گیا۔ اسحاق میراثی نے شوکت خانم ہاسپٹل کے علاوہ لاہور ایئر پورٹ کے پرانے ٹرمینل پر بھی دھماکہ کیا تھا۔ اسحاق میراثی کی گرفتاری پر میرے دل و دماغ میں کئی سوالات سلگنے لگے۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ لاہور کے ایک غریب دیہاتی نوجوان کی شوکت خانم ہاسپٹل سے کیا دشمنی تھی؟ انہی سوالات کی تلاش میں اپنے ایک ساتھی جمیل چشتی کے ذریعے لاہور پولیس کے مشہور افسر شفقات تک جا پہنچا۔ شفقات صاحب نے مجھے بتایا کہ کس طرح سرحدی علاقے میں ان کے مخبروں نے اطلاع دی کہ ایک غریب نوجوان اچانک امیر ہو گیا ہے اور علاقے کے چوہدریوں کو آنکھیں دکھانے لگا ہے اور کس طرح اس کی خفیہ نگرانی کی گئی اور پھر کس طرح اسے گرفتار کر کے بم دھماکے کا سراغ لگایا گیا۔ مجھے شک تھا کہ پولیس افسران نے محض انعامات اور ترقیوں کے لالچ میں کسی بے گناہ کو پکڑ لیا ہے۔ جب میرا شک دور نہ ہوا تو شفقات صاحب نے کہا کہ آپ کی ملزم اسحاق میراثی سے ملاقات کرا دیتے ہیں۔ آپ اس کا انٹرویو کر لیں اگر آپ مطمئن ہو گئے تو ٹھیک اور اگر نہ ہوئے تو پھر اللہ مالک۔
ملزم اسحاق میراثی تک مجھے کیسے پہنچایا گیا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ میں نے پولیس کی حراست میں اسحاق میراثی کا طویل انٹرویو کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ الائچیوں کی ا سمگلنگ کرتا تھا۔ ایک دن اسے بھارتی فوج نے سرحد پار کرتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے بعد ایک فوجی افسر نے اس سے پوچھا کہ وہ تمام عمر جیل میں سڑنا چاہتا ہے یا کوئی کام کرنا چاہتا ہے۔ اسحاق نے کہا کہ وہ کام کرنا چاہتا ہے لہٰذا اس نوجوان کو بم بنانے اور بم دھماکے کی تربیت دیکر پاکستان بھیجا گیا۔ یہ دھماکہ کرتا تھا، پھر دھماکے کی خبروں والے انگریزی اخبار لے کر سرحد پار کرتا تھا اور اپنی کارکردگی کے ثبوت دکھا کر پاکستانی کرنسی میں رقم وصول کرتا تھا۔
اسحاق میراثی کا ایک پرانا اسمگلرسا تھی بیک وقت بھارتی فوج اور پاکستانی اداروں کے لئے کام کرتا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ شوکت خانم ہاسپٹل میں دھماکہ کرنے والے کے سر کی قیمت لگ گئی ہے تو اس نے اسحاق میراثی کو پکڑوا دیا۔ اسحاق میراثی کا انٹرویو اخبار میں شائع ہوا تو ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ وہ صحافی جو یہ انٹرویو نہ کر سکے۔ انہوں نے شور مچا دیا کہ ایک زیر حراست ملزم کا انٹرویو کیسے ہو گیا؟ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر بھی ناراض ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی اسحاق میراثی کا پاکستان میں ایک اہم ساتھی گرفتار نہیں ہوا اس لئے یہ انٹرویو شائع نہیں ہونا چاہئے تھا۔ بابر صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ بھارت کی طرف سے لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں ایک طرف غریب اور بے روز گار نوجوانوں کو خریدا جا رہا ہے، دوسری طرف کچھ فرقہ وارانہ تنظیموں کو بھی رقوم دی جا رہی ہیں تاکہ وہ پاکستان میں شیعہ سنی فساد پھیلائیں۔ میں نے پوچھا کہ بھارت یہ کیوں کر رہا ہے تو بابر صاحب نے کہا کہ بھارت ہمیں بلیک میل کر رہاہے۔ بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان کشمیر کی تحریک آزاد کی حمایت چھوڑ دے اور افغان طالبان کی مدد کرنا بند کر دے۔ بھارتی فوج تاجکستان کے راستے سے شمالی اتحاد کی مدد کر رہی ہے۔ نصیر اللہ بابر نے شمالی اتحاد اور طالبان میں مفاہمت کیلئے ہوم ورک مکمل کر لیا تھا لیکن اس دوران نومبر 1996ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہو گئی۔ میں نے یہ سارا قصہ صری یہ کہنے کیلئے لکھا ہے کہ بھارتی فوج کی طرف سے پاکستان کے اندر خفیہ کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے 21 ستمبر کو یہ انکشاف کیا ہے کہ سابق بھارتی آرم چیف جنرل وی کے سنگھ نے ملٹری انٹیلی جنس کے ذریعے ایک خفیہ یونٹ بنایا تھا جو پاکستان کے اندر حافظ محمد سعید کے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہتا تھا۔ جنرل وی کے سنگھ کے اس خفیہ یونٹ کو ہندوستان ٹائمز نے محض اس لئے بے نقاب کر دیا کہ وی کے سنگھ نے بھارت وزیر دفاع اے کے انتھونی کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کے علاوہ بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ بھارتی وزیر داخلہ سوشیل کمار شیندے کچھ ماہ پہلے خود دعویٰ کر چکے ہیں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے دہشت گردی کیلئے تربیتی کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ 15 ستمبر کو وی کے سنگھ نے بھارتی فوج کے سینکڑوں ریٹائرڈ افسران کو ہریانہ میں اکٹھا کیا اور نریندر مودی کے ساتھ مل کر ان سے خطاب کیا جس کے بعد بھارتی فوج اور بی جے پی میں موجود گہرے روابط کانگریس کیلئے باعث تشویش بن چکے ہیں۔مودی نہ صرف فوج میں بلکہ بھارت کی کاروباری برادری میں بڑے مقبول ہیں۔ اکنامک ٹائمز نے اپنے ایک سروے میں بتایا ہے کہ بھارت کے 100 کارپوریٹ مالکان میں سے 74 نریندر مودی کو وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ مودی کا امریکہ میں داخلہ بند ہے لیکن چین اور برطانیہ نے اس پر پابندیاں ختم کر دی ہیں۔ مودی کی مقبولیت کی وجہ کانگریس کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی کمزوریاں ہیں اور اسی کمزوری کے باعث من موہن سنگھ کی ناک کے نیچے ان کا آرمی چیف ان کی حکومت کے اتحادی عمر عبداللہ کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔ بھارتی فوج کل بھی پاکستان میں مداخلت کر رہی تھی آج بھی کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ملٹری انٹیلی جنس کا قائم کردہ ایک خفیہ یونٹ بند کر دیا گیا ہو لیکن ”را“ کے قائم کردہ کئی یونٹ بدستور پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔ اگر پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور من موہن سنگھ کی امریکہ میں ملاقات ہوتی ہے تو دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے جعلی مسکراہٹوں کے تبادلے کی بجائے صرف ایک موضوع پر بات کرنی چاہئے اور وہ یہ کہ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے خلاف سازشیں بند کر دیں ۔
تازہ ترین