• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ شروع ہوچکا ہے۔ یہ رمضان تو سیاسی ہلچل میں گزر رہا ہے۔ عبادات پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ کلمہ گو جو مکے مدینے میں یہ دن گزار رہے ہیں۔ فیس بک سے اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ ان سے ہماری استدعا یہ ہوگی کہ اس ملک کیلئے گڑ گڑاکر دعائیں کریں۔ بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ انا اپنے شباب پر ہے۔ قانون کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ عدلیہ اپنے ملزموں کو اعلیٰ ترین عہدوں کا حلف اٹھاتے دیکھ رہی ہے۔ رمضان المبارک میں عام طور پر سیاسی سرگرمیاں موقوف کردی جاتی تھیں لیکن یہ پارلیمانی نظام ہے۔ یہاں پہلے بھی رمضان میں انتخابی مہمیں چلتی رہی ہیں۔ آج آپ نے پھر افطار کی میز پر اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ ان کے سوالات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

بچے ضرور پوچھیں گے کہ عمران خان کے اتنے بڑے بڑے جلسے ہورہے ہیں۔ کیا اس طرح وہ واپس حکومت میں آسکتے ہیں۔ پہلے پشاور پھر کراچی اب لاہور۔ دونوں بڑے صوبے اور ایک افغانستان کا ہمسایہ صوبہ۔ لوگ تو بڑی تعداد میں آرہے ہیں۔ بہت غور سے تقریریں سن رہے ہیں۔ ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ کے فلک شگاف نعرے بھی لگ رہے ہیں۔ اب تو وہ کہہ رہے ہیں کہ جنہوں نے بھی یہ غلطی کی ہے اس کی تلافی کا ایک ہی راستہ ہے۔ فوری الیکشن۔ ویسے تو مطلوبہ الیکشن میں 1½سال باقی ہے۔ کیا جلسوں سے متعلقہ قوتوں کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ جلدہی دو تین ماہ میں الیکشن کروادیں۔ بحران سیاسی بھی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ اقتصادی۔ آئی ایم ایف۔ عالمی بینک اور دوسرے بین الاقوامی ادارے گھڑیاں گن رہے ہیں۔ سفید ہاتھی سخت برہم ہے۔ کسی ملک میں اس پر اس طرح کھلے عام لاکھوں کے مجمعوں میں تنقید نہیں ہوتی ہے۔ ہاتھی بہت منتقم مزاج ہوتا ہے۔ 1977 میں بھی اسی اپریل کے مہینے میں یہی حالات تھے۔ سیاسی قوتیں آپس میں معاہدہ کرنے والی تھیں کہ ہاتھی نے جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا حکم دیا۔ پھر وہ سب کچھ ہوتا رہا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اب جمہوریت کا دَور ہے، چاہے نام کی ہو، بھرم رکھنا پڑتا ہے، اسلئے چاہتے ہوئے بھی ’میرے عزیز ہم وطنو‘ نہیں ہوسکتا۔ پھر زبان خلق نقارۂ خدا بنتی جارہی ہے۔ دوسری طرف تیرہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے۔ ابھی تو شیر خوارگی کے عالم میں ہے۔ اصل ہدف تو حاصل ہوچکا ہے۔ اسلئے اب اتحاد کا کوئی جواز نہیں رہا۔ اسی جواز کے لیے اب کوششیں ہورہی ہیں۔

سیاسی اور اقتصادی سے کہیں زیادہ اخلاقی بحران ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ توشہ خانے میں رکھا ہوا ہے۔ توشہ خانے میں بچے کھچے تحائف ہمارے قائدین کی اخلاقی گراوٹ کے نوحے پڑھ رہے ہیں۔ خود داری۔ خود اعتمادی۔ خود کفالت کی لاشیں توشہ خانے سے کون اٹھائے گا۔ تاریخ شرم سے سرنگوں ہے۔ کہ یہ کیسے شرفا ہیں جو تحفے بیچ کھاتے ہیں۔ غیر ملکی حکمران‘ تو یہ قیمتی تحائف صدر۔ وزیر اعظم یا دوسرے عہدیداروں کو دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات کو مزید گہرے بنانے کے لیے عنایت کرتے ہیں۔ یہ کسی فرد کو نہیں۔ ریاست کو دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کا مناسب۔ قانونی مرکز توشہ خانہ ہی ہونا چاہئے۔ اس کے لیے 1974 میں باقاعدہ قوانین بھی منظورکیے گئے تھے۔ عام طور پر جب یہ تحائف تفویض کیے جاتے ہیں تو ملک کے پروٹوکول کا سربراہ یا کوئی نمائندہ ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان تحائف کے کوائف محفوظ کرے اور کیبنٹ ڈویژن کو مطلع کرے۔ یہ تقریب اگر ملک سے باہر ہورہی ہوتی ہے تو وہاں پاکستان کا سفیر موجود ہوتا ہے۔ یہ بھی قواعد میں کہا گیا ہے کہ پے اسکیل Iسے IVتک کے علاوہ کسی کو بھی غیر ملکی مہمانوں سے نقد کچھ لینے کی ممانعت ہے۔ اگر انکار ناگوار گزر رہا ہو۔ ممکن نہ ہو تو یہ نقد رقم فوراً قومی خزانے میں جمع کروادی جائے۔ صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ تمام سرکاری حکام کو منع کیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کا تحفہ نہ لیں۔ بہت مجبوری ہو تو اسے لے کر توشہ خانے میں جمع کروادیا جائے۔

یہ بھی طے ہوا تھا کہ توشہ خانے کا سالانہ معائنہ ہوگا۔ یہ بڑے لوگ جن کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں۔ ان کی طمع لالچ الامان الحفیظ۔ انہوں نے قوانین بنوالیے کہ یہ تحفے قیمت متعین کرواکے پھر مزید رعایت کرواکے خریدے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد پھر مارکیٹ میں بیچنے کی روایت بھی قائم کردی گئی ہے۔ اخلاقی انحطاط کی انتہا ہوگئی۔ اس توشہ خانے میں سب ننگے ہیں۔ سب نے قیمتی گھڑیاں۔ گاڑیاں۔ قالین۔ ہار۔ ڈنر سیٹ۔ قومی توشہ خانے میں نہیں رہنے دیے۔ اونے پونے داموں خریدنے کی رسمی کارروائی کی اور اپنے اپنے گھروں میں لے گئے۔ غیر ملکی قومیں ان کے سربراہ۔ بادشاہ۔ شہزادے ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتے ہوں گے۔ وہ تو ہمیں پہلے ہی ’مسکین‘ کہتے ہیں۔ ان واقعات سے تو ہماری ’مسکینی‘ اور مصدقہ ہوگئی۔ اس اخلاقی گراوٹ میں زیادہ نام وزرائے اعظم اور ان کے اہل خانہ کے آرہے ہیں۔ لیکن تحائف لینے والوں میں صدر۔ وزیر اعظم کے اہل خانہ کے علاوہ چیئرمین سینیٹ۔ اسپیکر قومی اسمبلی۔ چیف جسٹس۔ گورنرز۔ وفاقی وزرا۔ اٹارنی جنرل۔ وزرائے مملکت۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ۔ ڈپٹی اسپیکر۔ وزارتی منصب رکھنے والے حکام۔ ریاست کے زیر کنٹرول کارپوریشنوں کے سربراہ اور عہدیدار بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ جو لوگ بھی سرکاری وفود کے ارکان ہوتے ہیں سب پر یہ قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ 1974 سے ان میں سے کس کس نے تحائف وصول کیے۔ کیا وہ توشہ خانے میں جمع کروائے گئے۔

توشہ خانہ ہماری اخلاقیات کی ایک کسوٹی بن گیا ہے۔کتنی دیانت ہے۔ یہ تحائف قوم کی امانت ہوتے ہیں۔ اس لیے قومی خزانے اور توشہ خانے میں جمع ہونے چاہئیں۔ جن لوگوں نے بھی سستے داموں یہ قیمتی قومی تحائف خرید کر اپنے پاس رکھے یا بیچے۔ یا توشہ خانے میں جمع ہی نہیں کروائے۔ وہ خائن ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ انہیں فروخت کرکے کچھ بھی کروایا گیا ہو۔ یہ جواز نہیں بنتا ہے۔ تحائف دینے والی متعلقہ قوموں تک ہمارے اخلاق کے بارے میں اچھا پیغام نہیں جاتا ہے۔

پوری قوم کو سنجیدگی سے توشہ خانے کے قواعد و ضوابط کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اور جن معزز پاکستانیوں نے توشہ خانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں وہ خود اس اخلاقی جرم کی کچھ تلافی سوچیں۔ ایک دوسرے کے لیڈروں پر جوابی الزامات لگانے سے کسی کی بھی بے گناہی ثابت نہیں ہوگی۔

تازہ ترین