• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن تک اپنی اصلاح کا نادر موقع

عجلت اکثر تاخیر کو جنم دیتی ہے۔ امن ایک ایسا عمل ہے جو قوموں کو آگے بڑھنے کے مواقع عطا کرتا ہے، جنگ و جدل سے انسانی آبادی کم کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ غوثِ اعظمؒ کے پاس ان کا بڑا بیٹا کچھ مسائل لے کر آیا، آپ نے جواباً تین لفظ کہے: ’’صبر، شکر اور انتظار‘‘۔ پی ٹی آئی اگر اپنے تنِ تار تار پر نظر ڈالے تو اس کو انتخابات تک ماضی کی غلطیاں ٹھیک کرنے کاوقت مل گیا۔ اب اگر وہ عقل و دانش سے کام لیں تو ازسر نو اپنی جماعت کی اصلاح کریں تاکہ جو نتائج وہ چاہتے ہیں حاصل کر سکیں، اپنے ملک میں ہم سب مل کر تباہی بربادی کی پوری کوشش کرتے ہیں، مگر غیب سے کوئی ایسا بندوبست ہو جاتا ہے کہ مادر وطن پھر بچ جاتی ہے، کسی بھی شخصیت میں کتنی بھی بڑی خوبیاں ہوں مگر ان سے خلقِ خدا کو فائدہ نہ پہنچے تو خوبیاں اپنا وجود کھو دیتی ہیں، اگر سابقہ اپوزیشن نہ بھیہوتی تو ہم اب تک کسی گہری کھائی میں گر چکے ہوتے، صلح نامہ حدیبیہ میں نرم موقف اختیار کرنا وقت حاصل کرنا تھا، فتح مکہ کے لیے۔ اگر ریاستِ مدینہ کا نام لے ہی لیا ہے تو سیرتِ طیبہ کے ویژن کو بھی سمجھا جائے، یہ وطن ذرا مڑ کر دیکھیں کہ کس قدر طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا بلکہ اس نعمت کا حصول کسی معجزے سے کم نہیں، مریم اورنگزیب کی اس بات کا برا نہ منائیں کہ انتخابات، حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد ہوں گے، بعض اوقات حریفانہ بات بھی حلیفانہ ثابت ہو جاتی ہے، انتخابات تک موجودہ حکومت کی آنیاں جانیاں بھی سامنے آ جائیں گی، خان صاحب اپنی ٹیم تیار کریں اور یہ جوآخری گیند تک کھیلنے کا کھیل ہے اس نے اب تک ان کو کیا دیا ہے، جب کوئی چیز بار بار حاصل کرنے کی کوشش ہر بار ناکام ہو تو اسے مشیت ایزدی سمجھ کر اپنی پارٹی کو ٹی پارٹی کے دائرے سے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے، آگے تیرے بھاگ لچھیے!

٭٭٭٭

خان کا ’’چٹان‘‘

ایک شخص جو اسکول کی ٹلی کی طرح بجتا رہتا ہے اور خان کے ساتھ آخری دم تک چٹان کی طرح کھڑا رہنے کا نعرہ بلند کرتا ہے اس پر بھی پارٹی کے دانشور غور کرلیں کہ ناکامیوں میں اس چٹان کا کتنا ہاتھ ہے، اگر دو تہائی اکثریت کا یقین نہ ہو تو بلاوجہ دریائے انتخاب میں چھلانگ لگانے سے گریز کرنا چاہیے، غصہ اور جذباتیت پر کھڑا پنڈال عین موقع پر راستہ بدل لیتا ہے۔؎

جلسوں کے مت فریب میں آجائیو عمران

یہ سیاست تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

حضرت شیخ کی کسی تقریر میں کبھی کسی نےسیاسی شعور دیکھا؟ جگت بازی میں لفظوں کا حسنِ انتخاب بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے، ہمارے ہاں بڑے بڑے خطیب پیدا ہوئے، نواب بہادر یار جنگ، عطا اللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری اور ان کے استاد مولانا ظفر علی خان، ان خطیبوں کی تقاریر جادو اثر تھیں، اب تو یہ دور آگیا ہے کہ سیاستدانوں کی اردو ہی صحیح نہیں ہوتی، بلاول سے گلہ نہیں کہ وہ ابھی اردو سیکھ رہے ہیں اور بڑی تیزی سے ان کی زبان و بیان میں عمدگی پیدا ہو رہی ہے، آج قائداعظم زندہ ہوتے تو کیا ان کی اردو پر بھی اعتراض کرتے، بہرحال خطیبانہ شعلہ نوائی بھی ایک ذہنی تعیش ہے اصل بات تو کام، کام اور کام ہے، پانچ سیٹوں والے اتحادی کو خان کے چٹان نے بہت بدظن کیا تھا کیا یہ سچ نہیں، اور انہیں بلیک میلر بھی کہا تھا، ہمیں کیا، خان صاحب کو سیاسی مسخروں کو اپنی جماعت سے دور رکھنا چاہیے، ان کی نذر یہ شعر ہی کافی ہے؎

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

٭٭٭٭

قدم قدم تجاوزات

20فٹ کی گلی کو تجاوزات کے ذریعے 10 فٹ میں تبدیل کردیا جاتا ہے، ایک دن آئے گا کہ گھر میں داخل ہو کر باہر نہیں نکل سکیں گے، تھڑے، کیاریاں، حتیٰ کہ مین گیٹ بھی گلی میں،ہر مکان کی دوسری منزل پر نصف کمرہ گلی میں ہوتا ہے اور مسقف گلیوں کا یہ انداز ایک روز باہم ہاتھ ملانے تک جا پہنچے گا، ہم بازاروں کے تجاوزات کی بات نہیں کرتے گلی کوچوں میں بڑھتے تجاوزات کا ذکر کرتے ہیں، ضرور کوئی محکمہ تو ہوگا جو سوموٹو نوٹس لے اور گلیوں کوبھی آزادی دلا دے۔ شاید نیا لاہور پرانے لاہور کے نقش قدم پر چل نکلا ہے، ہم اس لاہور کی بات نہیں کر رہے جو کہیں کھو گیا، ہم تو اس نئے لاہور کا ذکر کر رہے ہیں جو کہیں سو گیا۔ جب سے سابق وزیر اعلیٰ اور حاضر سروس وزیر اعظم اقتدار میں آئے ہیں تو دل میں ایک ٹھنڈ سی پڑ گئی ہے کہ اب پورا ملک ان کی عقابی نظر سے بچ نہ سکے گا۔ وہ ضرور ہماری عرضداشت قدم قدم تجاوزات کا مطالعہ فرما کر کم از کم لاہور کے گلی کوچوں میں اگنے والی تجاوزات کی کٹائی ضرور کریں گے کیونکہ وہ لاہور کو پیرس بنانا چاہتے ہیں، یہ نہ ہو کہ ایکشن ہونے تک یہ شہر ڈٹھا کھوہ بن جائے۔

٭٭٭٭

سو گلاں دی اکوای گل

...آج ہم اپنے عزیز ہم وطنوں سے اتنی سی گزارش کریں گے کہ ’’قولو للناس حسنا‘‘ القرآن (لوگوں سے خوش اخلاقی سے بات کرو) ہمارے ہاں بدزبانی ،بد کلامی روز افزوں عام ہوتی جا رہی ہے۔ ہم جسے جانتے ہیں اسے سلام کرتےہیں جسے نہیں جانتے اسے سلام تو کجا محسوس بھی نہیں کرتے، تم پر سلامتی ہو، یہ جملہ کتنی کدورتیں دور کردیتا ہے کبھی غور ہی نہیں کیا، ہم یہاں کسی ایک کو نشانہ نہیں بنانا چاہتے مگر ہمارے سیاستدانوں نے معذرت کے ساتھ اس ملک میں بدکلامی، بداخلاقی، ہرزہ سرائی کی بنیاد ڈال دی ہے، اگر کوئی بداخلاق تو آپ اتنے خوش اخلاق بن جائیں کہ بداخلاق، بداخلاقی ترک کردے، آخر ہمارا ضمیر اس حوالے سے کب جاگے گا؟

تازہ ترین