• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیانیہ وہ پُراثر اصطلاح ہے جو سیاست کی مارکیٹنگ میں میاں نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے بعد مقبول ہوئی۔ اسی طرح مشرف دور میں ’’زمینی حقائق‘‘ کے استعمال کے بغیر کوئی سیاسی گفتگو رنگ نہ پکڑتی۔ ایسے ہی ماضی میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کو پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین سے الگ کرکے قاف لیگ سے عارضی اور بعد ازاں مستقل جوڑا گیا اور ان کے آمیزے سے کشید ہونے والی جمہوریت کو کچھ صاحبانِ علم و ادب نے ’’انجینئرڈ جمہوریت‘‘ کی اصطلاح سے شگفتگی اور معنویت بخشی۔ آج کل پھر ایک بیانیہ اپنے عروج پر ہے اور وہ ’’لیٹر گیٹ‘‘ کا بیانیہ ہے جس کے شور و غل میں جمہوری انداز سے بدلی ہوئی حکومت کو امپورٹڈ گورنمنٹ کا نام اور برانڈ دیا جارہا ہے۔ ممکن ہے کچھ دوستوں کیلئے ’’جمہوری انداز سے بدلی ہوئی حکومت‘‘ والے الفاظ ناقابلِ ہضم ہوں تاہم یہ زود فہم ضرور ہیں۔ اگر 2018والے انتقالِ اقتدار کو جمہوری انداز سے بدلی حکومت کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو پھر متذکرہ جملہ کہنے میں حرج ہی کیا ہے؟

نیشنل سیکورٹی کونسل نے تار اور سرکار سے متعلقہ سفیر کو بلا کر سننے کے بعد پھر یہی اعلامیہ جاری کیا ہے کہ کوئی خط سازش بھرا تھا نہ ہے لیکن ’’میں جانتا ہوں جو عمران خان کہیں گے جواب میں‘‘۔ سو عدالتی انکوائری بھی کرا ہی لیجئے، حالانکہ عدالت نے بھی انہی لوگوں سے انکوائری کرنی ہے، خود تو انکوائری کرنے نہیں نکلے گی، یہ بھی صداقتِ عامہ ہے کہ عمران خان عدالت کی بھی نہیں سنیں گے۔ حالانکہ لوگوں کو یاد ہوگا کہ چار ماہ سے زیادہ دھرنے میں گنگنایا جانے والا وہ بیانیہ جسے ’’35پنکچرز‘‘ کا نام دیا گیا تھا، اس کا ڈراپ سین یہ ہوا تھا کہ عمران خان اور ہم نواؤں نے یہ کہہ کر اپنے ہی بیانیے کو گونگا کردیا کہ یہ ’’35پنکچرز‘‘ سیاسی بیان تھا۔ گویا یہ بات سامنے آئی تھی کہ الیکشن 13میں کسی باقاعدہ دھاندلی کا تصور نہ تھا، اپنے ہی بیانیے کو ’’سیاسی بیانیہ‘‘ قرار دے دیا گیا۔ اس سازشی خط والے بیانیے کو بھی آخر سیاسی بیانیہ ہی قرار دیا جائے گا اور ممکن ہے کہ عمران کسی موقع پر از خود ہی یہ قرار دے دیں مگر تب تک کہانی بہت آگے نکل چکی ہوگی۔ کوئی عالمی مثال سے ان سیاسی باتوں کو سمجھنا چاہتا ہے تو وہ امریکی تاریخ کا ڈونلڈ ٹرمپ اور گیس لائٹنگ تھیوری کا مطالعہ کرلے!

عدالت کے متعلق (بلکہ عدالت کے خلاف) بھی جو بیانیہ گڑھا گیا کہ عدالت آدھی رات کو کیوں لگی، سچ تو یہ ہے کہ اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی کہ مارشل لاء لگے پس فراست نے عدالت لگا لی، جو آئینی اور قانونی اعتبار سے سو فیصد درست تھا جب تحریک انصاف عدالت اور آئین کو بائی پاس کرکے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہی نہیں چاہ رہی تھی۔ اس نازک گھڑی میں فاشزم کی پگڈنڈی پر رونق دکھائی دے رہی تھی۔

ایک کڑوا سچ یہ بھی کہ متعدد نے عمران خان سے سیاسی ہمدردی کا اس لیے نہیں سوچا تھا کہ وہ صادق ہیں تاہم یہ ضرور سوچا کہ اسٹیٹس کو کو پیوندِ خاک کریں گے۔ کیا خاک ہوا؟ عمران خان سیلیبرٹی اور کرکٹ چیمپئن کی طمطراقی، آکسفورڈ سے تعلیم، دلکش طنطنہ، سیاسی گلیمر اور دلفریب فینٹیسی بن گئے۔ آخر یہ علامتی اور استعارہ و تشبیہ امیج والے لوگ ہی اسٹیٹس کو بنتے ہیں۔ نئی نسل نے والدین سے جناح و بھٹو کے جو قصے سنے تھے، ان سب نے خان کو اس میں فٹ کرلیا، سو ایک منفرد اسٹیٹس کو تراش لیا، اسٹیٹس کو کی تراش خراش اور پوجا پرستش برصغیر کا دائمی سائیکالوجیکل مسئلہ ہے! جہاں شخصیات مہمات سے، شخصی آمریت والا فارمولا جمہوریت سے اور سازشی بیانیے حقیقی بیانیہ سے آگے نکل جاتا ہے جبکہ جمہوریت کا یہ آزمودہ اصول اور واضح اعلان ہے کہ آج کا اپوزیشن لیڈر کل کا سربراہ حکومت، سربراہ حکومت کل کا اپوزیشن لیڈر! چرچل بھی اپوزیشن تو کبھی حکومت میں رہا مگر وہ ہٹلر بنا نہ کبھی مسولینی! چرچل، چرچل ہی رہا!

کوئی شک نہیں ہے جب کوئی بیانیہ تلاطم خیز موجوں کا روپ دھار لے تو اس کے آگے بند باندھنا آسان نہیں ہوتا، تین چیزوں کے سبب بیانیہ شباب پاتا ہے: 1۔ فالوورز گیس لائٹنگ کا شکار ہوجائیں۔ 2۔ عوام میں حبِ علی کم اور بغض معاویہ زیادہ کار فرما ہو۔ 3۔ جن کے خلاف عوام کا حصہ بیانیہ تراشے بیٹھا ہو ان کی شخصیت اور کارکردگی خاطر خواہ ردِ عمل ظاہر کرنے سے قاصر ہو۔

بہرحال عہدِ حاضر کا ’’بیانیہ‘‘ عوام کا بیانیہ نہیں، یہ بیانیہ لیٹر گیٹ اور امریکی مداخلت اور سازش کے گرد گھومتا ہے، پھر یہ خان حکومت کی پونے چار سال کی ناقص کارکردگی چھپانے کا فارمولا ہے۔ اس کا بگاڑ یہ کہ اس میں کل تک جس اسٹیبلشمنٹ اور عدالت کے نغمے گنگنائے جارہے تھے انہیں عمل سے متاثر نہ کر پانے کے برعکس تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عوام کے بیانیے کو سیاست دانوں نے کبھی لیا ہی نہیں بلکہ عوام ہی سیاست دانوں کا بیانیہ مستعار لیتے آئے، پس انہیں روٹی کپڑا یا تبدیلی نہیں ملتی تاہم لیڈر شپ کیلئے عنانِ اقتدار کا دریچہ کھل جاتا ہے۔ جمہوریت ہمیشہ مصالحت، ڈائیلاگ اور آئین کی متلاشی ہے جبکہ ضد، گیس لائٹنگ اور قیادت کی نرگسیت جمہوریت کیلئے بگاڑ کے سوا کچھ نہیں، قلیل وقتی فائدہ تو مل جاتا ہے کثیر وقتی نہیں، واضح رہے یونیورسٹیاں قوم کی خودمختار سوچ اور تحقیق کا دوسرا نام ہیں، امریکی تحقیق نے امریکہ کو امریکہ بنایا، ہمارے برین ڈرین کا معاملہ ہو یا عالمی ضرورت کا امریکہ آج بھی فل برائٹ اسکالر شپ پاکستان کو کثرت میں دیتا ہے ثابت ہوا ٹیلنٹ ہم میں ہے! جو چیپٹر کھلا ہے، پاکستانی یونیورسٹیوں اور محققین کو تاریخ، انٹرنیشنل افیئرز، سوشیالوجی، لاء، سائیکالوجی اور رویوں کی سائنسز کے پلیٹ فارم پر جید تحقیق کرکے قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے! دوسری جانب موجودہ عارضی حکومت کو ہیلتھ، ایجوکیشن، داخلہ و خارجہ، منصوبہ بندی و اصلاحات اور خزانے کے تناظر میں حقیقت پسندی سے قبلہ درست کرنے کو رواج دینا ہوگا، بلف کلچر سے اجتناب ضروری ہے۔ کل اور آج کے وزراء کو لیاقت، دیانت اور قیادت کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا، ڈگریوں پر نہیں۔ علم کے سنگ حکمت کی اسناد بھی ضروری ہیں۔ رومی و سعدی کے پاس کتنی بڑی ڈگریاں تھیں؟ جب تک تیرگی میں دیکھنے کو چشم بینا نہ ہو جمہوریت بچتی ہے نہ نظریہ، بس نظریۂ ضرورت ہی بچتا ہے جس کی مقدار آج کے لیڈر میں بڑھ چکی کہ وہ بیانیے کی کاٹ اور کانٹ چھانٹ قوم کے نام پر محض اپنے لیے استعمال کرنے اور گھڑنے کے درپے ہے!

تازہ ترین