• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک نے 13 ستمبر 2013ء کو اپنی مانیٹری پالیسی کی سہ ماہی رپورٹ میں ڈسکاؤنٹ ریٹ 50 بیسز پوائنٹس اضافے سے 9.5% کرکے اسٹاک بروکرز، سرمایہ کاروں اور بزنس مینوں کو حیران کردیا ہے۔ معیشت کے ماہرین اور میں نے مانیٹری پالیسی کے اعلان سے قبل مختلف ٹی وی پروگرامز میں ڈسکاؤنٹ ریٹ کی شرح برقرار رکھنے کی پیش گوئی کی تھی کیونکہ آئی ایم ایف کے نئے قرضے کی شرائط میں اس سال ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی تھی اور انہیں اس سال کے آخر تک چھوٹ دی گئی تھی لہٰذااسٹیٹ بینک ملکی گروتھ کیلئے 9% ڈسکاؤنٹ ریٹ کی سطح برقرار رکھ سکتا تھا۔ افراط زر(CPI) کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں افراط زر کو 20% کی نہایت بلند سطح سے جون 2013ء میں 6% تک لایا گیا تھا جو معاشی ماہرین کے مطابق بہت مشکل ہدف تھا لیکن گزشتہ ڈھائی مہینوں میں یہ بڑھ کر 8.5% تک پہنچ چکا ہے۔ میں نے 22 اپریل 2013ء کے اپنے کالم میں یہ کہا تھا کہ رواں مالی سال افراط زر مزید بڑھے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بھی حالیہ مانیٹری پالیسی میں رواں مالی سال افراط زر میں مزید اضافے کی توقع ظاہر کی ہے جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ مستقبل میں ڈسکاؤنٹ ریٹ میں مزید اضافہ ہوگا۔
افراط زر یا مہنگائی کے بڑھنے سے عوام کی قوت خرید میں کمی آتی ہے جس سے مارکیٹ میں کساد بازاری اور مندی شروع ہوجاتی ہے اور معاشی گروتھ متاثر ہوتی ہے۔ بیرونی ممالک میں افراط زر بڑھنے کے ساتھ ساتھ تنخواہوں، اجرتوں اور آمدنی میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ صارف کی قوت خرید زیادہ متاثر نہ ہو لیکن ہمارے ملک میں ایسا کوئی میکنزم نہیں جس کی وجہ سے ملک میں افراط زر بڑھنے سے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ حکومت افراط زر میں کمی کے ساتھ ساتھ ڈسکاؤنٹ ریٹ کو بھی مسلسل 3 سالوں کے دوران کم کرکے 9% کی سنگل ڈیجٹ تک لے آئی تھی لیکن اب اس میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سارک ریجن میں اس وقت افغانستان کا ڈسکاؤنٹ ریٹ 15% اور پاکستان کا 9.5% ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے جبکہ انڈیا اور سری لنکا کا 7.5%، بنگلہ دیش کا 7.25%، مالدیپ کا 7%، نیپال اور بھوٹان 6% ہے۔ ڈسکاؤنٹ ریٹ کا براہ راست تعلق افراط زر سے ہوتا ہے۔ افراط زر کو بڑھنے سے روکنے کیلئے سخت مالیاتی پالیسی کے ذریعے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ مارکیٹ میں اضافی پیسوں (M2)کو کم کیا جائے لیکن ڈسکاؤنٹ ریٹ بڑھانے سے بینکوں سے لئے گئے قرضوں پر سود کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے کاروبار کی مالی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے ہماری پیداواری لاگت پہلے ہی کافی بڑھ چکی ہے اور شرح سود میں حالیہ اضافے سے اس میں مزید اضافہ ہوگا جو ملک میں نئی سرمایہ کاری کیلئے نقصان دہ ہے۔
میں نے اپنے کئی ٹی وی انٹرویوز اور کالمز میں اس بات پر زور دیا ہے کہ مانیٹری پالیسی کا مقصد افراط زر کو بڑھنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ ملک میں گروتھ کو بھی برقرار رکھنا ہوتا ہے یعنی اگر افراط زر کو روکنے کیلئے ملکی گروتھ رک جائے تو وہ ایک اچھی مانیٹری پالیسی نہیں کہلائے گی۔ صنعتی عمل کے فروغ اور نئی سرمایہ کاری کیلئے بزنس مینوں نے حکومت سے بینکوں کے قرضوں کی شرح سود سنگل ڈیجٹ تک لانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ڈسکاؤنٹ ریٹ میں حالیہ اضافے نے بینکوں کے شرح سود میں مزید اضافہ کردیا ہے جو ملک میں نئی سرمایہ کاری کیلئے سود مند نہیں۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے ڈھائی ماہ کے دوران 547 ارب روپے کے نئے قرضے لئے ہیں اور ملک میں امن و امان اور توانائی کے بحران کے باعث نجی شعبے کے قرضوں میں کمی ہوئی ہے جو ملکی گروتھ متاثر کرے گی۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی خسارہ بڑھنے کی اہم وجہ حکومتی قرضوں میں اضافہ ہے جس کیلئے جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح کو ہنگامی بنیادوں پر بڑھانا ہوگا۔ اس کے علاوہ جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی موجودہ شرح جو خطے میں سب سے کم 9.5%ہے کو بڑھانے کیلئے حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے جبکہ خدمات و زراعت سیکٹرز پر ٹیکس نہ صرف عائد کرنا ہوگا بلکہ اس کی وصولی کو بھی موثر اور یقینی بنانا ہوگا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران ایف بی آر کی براہ راست ٹیکسوں کی وصولی گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں کم ہوئی ہے جسے بہتر بنانے کیلئے ہمیں بلاواسطہ (Indirect) ٹیکسوں کی وصولی کو مرحلہ وار کم کرکے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بالواسطہ (Direct) ٹیکسوں کی وصولی کا نظام موثر بنانا ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق یکم جولائی 2013ء سے اب تک گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران روپے کی قدر میں5%کمی ہوئی ہے جس کی وجہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور عازمین حج کیلئے ڈالرز فراہم کرنا بتایا گیا ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر سنبھالنے کیلئے حکومت کو ایکسپورٹ، ترسیلات زر، نجکاری اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے ہوں گے نہیں تو ملک میں ڈالرائزیشن کا خطرناک کھیل شروع ہوسکتا ہے جس میں روپے کی گرتی ہوئی قدر کے پیش نظر لوگ اپنی جمع پونجی ڈالر میں منتقل کرکے مستقبل کی ادائیگیوں کیلئے رکھ لیتے ہیں اور ڈالر کی طلب بڑھنے سے روپے کی قدر مزید گرجاتی ہے جس کے باعث بیٹھے بٹھائے بیرونی قرضوں اور بجٹ خسارے میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ روپے کی قدر مزید گرنے سے روکنے کیلئے حکومت بالخصوص اسٹیٹ بینک کی جانب سے ماضی کی طرح مارکیٹ میں کوئی مداخلت نہیں کی جارہی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال ملکی ترسیلات زر میں 6.35% اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ہمیں 14 بلین ڈالر سے زیادہ ترسیلات موصول ہوئی تھیں جن میں سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب (3 ارب ڈالر) اور یو اے ای (2 ارب ڈالر) سے موصول ہوئے جبکہ امریکہ سے (1.6 ارب ڈالر)، برطانیہ سے (1.4 ارب ڈالر)، خلیجی ممالک سے (1.2 ارب ڈالر)، ناروے، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان سے 752 ملین ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئیں جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سپورٹ ملی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کی مثبت کارکردگی کی وجہ سے ملکی ایکسپورٹس میں بہتری آئی ہے لیکن امن و امان کی ابتر صورتحال اور توانائی کے بحران کے باعث بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری بھی ایک طویل مرحلہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں 600 ملین ڈالر، پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے 800 ملین ڈالر کے بقایا جات اور تھری جی لائسنس کی نیلامی سے تقریباً ایک بلین ڈالر کے حصول کیلئے اپنی کوششیں تیز کرے۔ بینکنگ ذرائع سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ حکومت نے 5.67% کے بلند شرح منافع پر 500 ملین ڈالر کے قرضے کے حصول کیلئے پاکستان میں قائم غیر ملکی بینکوں کو خطوط لکھے ہیں۔ ان بینکوں کیلئے یہ انتہائی سودمند ہے کہ وہ اپنے ہیڈ آفس سے 2.5% سے 3% شرح منافع پر فنڈز حاصل کرکے حکومت پاکستان کو تقریباً 6% شرح منافع پر فراہم کرسکتے ہیں کیونکہ یورپ اور امریکہ میں فیڈرل ریزرو ریٹ 1% سے بھی کم ہے اور امریکہ میں بینکس15 سال کے طویل المدتی قرضے صرف 2.5% سے 3% شرح منافع پر دے رہے ہیں۔ قارئین! افراط زر، ڈسکاؤنٹ ریٹ اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کا براہ راست اثر بجٹ خسارے پر پڑتا ہے جو پہلے ہی نہایت بلند 8% کی سطح پر پہنچ چکا ہے لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مستقبل میں اسے 4% تک لانے کا وعدہ کیا ہے جو حکومت کیلئے یقینا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
تازہ ترین