• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ(ن)جب بھی حکومت میں آتی ہے تو اس کے اقتصادی ا یجنڈے میں مختلف اداروں کی نجکاری اور پبلک سیکٹر اداروں کا رول کم کرکے نجی شعبہ کو فوتیت دینے کے حوالے سے کئی اقدامات پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے کئی منصوبے اور مقاصد تو پورے ہوجاتے ہیں اور کئی خوابوں کی طرح زندہ رہتے ہیں، اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے دور میں براہ راست نجکاری سے زیادہ ووٹرز کو اس میں حصہ دینے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اس پارٹی کے بھی اپنے مقاصد ہوتے ہیں ۔مجموعی طور پر پاکستان میں نجکاری پالیسی دونوں بڑی پارٹیوں کی سیاسی ضروریات کے تحت چلتی رہتی ہے مگر پیپلز پارٹی کے حالیہ دور میں تو خیر سے جیسے باقی اقتصادی شعبوں میں کوئی کام نہیں ہوا، اسی طرح خسارے میں جانے والے یا اقتصادی اور انتظامی طور پر تباہ حال اداروں کو بہتر بنانے یا ان کو فروخت کرنے کا کوئی کام بھی نہ ہوسکا۔ بہرحال اب موجودہ حکومت نے اس حوالے سے انگڑائی لی ہے اور پی آئی اے کے26فیصد حصص کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے ۔ جی ہاں یہ وہی پی آئی اے ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کا پرچم جانی جاتی ہے۔1950ء کی دہائی میں بمبئی سے آکر کام کرنے والی اورینٹ ایئر لائنز کے ادغام کے بعد عملاً پی آئی اے کا ادارہ قائم ہوا۔ اسی طرح قیام پاکستان کے بعد پی آئی اے پہلا ادارہ تھا جو عملاً پاکستان نے بنایا جبکہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان ریلوے، پوسٹ آفس اور دوسرے کئی ادارے اسے ورثے میں ملے تھے۔پی آئی اے سے پہلے چند سال تو اورینٹ ائیر لائنز تھی جس کے جہاز اس وقت کے بین الاقوامی معیار کے حساب سے کافی پرانے تھے۔ لاہور کا ائیر پورٹ والٹن ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی انفراسٹرکچر نہیں تھا۔ پی آئی اے کو بین الاقوامی ائیر لائن بنانے میں پاکستان کی دو عظیم شخصیات ائیر مارشل نور خان اور پھر ائیر مارشل اصغر خان کا نمایاں کردار ہے۔ اس عرصہ میں دنیا میں 28-27جن ا ئیر لائنز نے جنم لیاان میں امارات،تھائی، چین سمیت کئی ممالک نے پی آئی اے کے ماہرین کی خدمات سے اپنے ادارے قائم کئے۔پی آئی اے کا سلوگن جناب فیض احمد فیض نے تجویز کیا تھا۔ ”باکمال لوگ، لاجواب سروس“۔
اب حالیہ30-25برسوں میں نہ تو اس میں باکمال لوگ رہے اور نہ لاجواب سروس رہی۔ 1990ء کے بعد سے اب تک پی آئی اے کی نجکاری اور اس کے حالات بہتر بنانے کے لئے مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کی دونوں حکومتوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ دونوں حکومتوں کے ایجنڈے پر پی آئی اے کو نجکاری کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں کام کرنے والے بے نامی افراد کی ا کثریت اس کی نجکاری پر پریشان تھی کہ پاکستان کی پہچان کو دوسروں کے ہاتھ فروخت کردینا زیادتی ہے۔ اس لئے کہ پی آئی اے ہمارا نیشنل کیرئیر ہے۔ اس کے حالات بہتر کرنے چاہئیں مگر اسے فروخت نہیں کرنا چاہئے۔ ویسے بھی اس وقت اسکے مالی و انتظامی معاملات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ اس کیلئے بین الاقوامی مارکیٹ یا کسی بیرون ملک مقیم پاکستانی گروپ کی طرف سے اس کے 26فیصد حصص کی فروخت کا بھی کوئی اچھا ریٹ مل سکے اور اگر قطر حکومت یا امارات کے حکام اسے لیتے ہیں تو وہ بھی کیا دیں گے۔ پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی نجکاری سے قبل جائزہ لیا جائے کہ ان کی تباہی میں کون کون ذمہ دار ہے تو اس میں سول ہوں یا فوجی حکمران سب آتے ہیں۔ ایک منافع بخش ادارے کو لاتعداد فاضل ملازمین، بے انتہا غیر ضروری اخراجات، انتظامی کرپشن اور دیگر طریقوں سے باقاعدہ منصوبہ بندی سے تباہ کیا گیا۔ اب اس کی حالت یہ ہے کہ پی آئی اے کے 47 سے زائد طیاروں میں سے قابل استعمال 32 طیاروں کے لئے 18ہزار سے زائد ملازمین ہیں جو کہ اوسطاً 562 ملازم فی طیارہ بنتے ہیں۔ جن کی تنخواہ کے اخراجات اربوں روپے جبکہ قرضے اور سود کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ پی آئی اے کے ایک فیصد حصص ہوں یا 26 فیصد ان کی فروخت سے قبل پی آئی اے کے حالیہ 25 برسوں میں جو بھی چیئرمین یا سربراہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف خود ان سے مشاورت کریں اور کوشش کریں کہ پی آئی اے کو پاکستان ہی کی ملکیت رہنے دیا جائے۔ اس سلسلہ میں نجی شعبہ کا بااختیار بورڈ از سر نو تشکیل دیا جائے اس کے جو بھی ممبران ہوں انہیں بالواسطہ یا بلا واسطہ پی آئی اے کے نہ تو حصص خریدنے کی اجازت دی جائے اور نہ کوئی کسی سبسڈی یونٹ کی فروخت کی جائے۔ نجی شعبہ کے بااختیار بورڈ کو مینجمنٹ دیدی جائے لیکن اس کی اونر شپ حکومت کے پاس رہے کسی دوہری شہریت رکھنے والی سیاسی شخصیت کو بھی پی آئی اے یا کسی بھی قومی ادارے کے معاملات میں کوئی رول نہ دیا جائے۔
اس کے علاوہ پی آئی اے کے خسارہ میں کمی کے لئے حج کی سبسڈی یا فوج اور ایوی ایشن کے تمام اداروں کو دی جانے والی مراعات ختم کردی جائیں بلکہ پی آئی ا ے کو مکمل طو رپر کمرشل بنیادوں پر چلایا جائے۔ پارلیمنٹرین ،فوجی ادارے اور سول ایوی ایشن اور دیگر اداروں کے آفیسروں کو متعلقہ حکام اپنے بجٹ میں جو مراعات دینا چاہیں وہ دیں مگر پی آئی اے پر اس کا کوئی مالی بوجھ نہ ڈالیں اور یہی اصول پاکستان ریلوے میں بھی اپنا یا جائے اگر پاکستان میں مفت خوری سے سفر کی حوصلہ شکنی کردی جائے تو اس سے بھی کئی ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے بشرطیکہ نیک نیتی سے یہ کام کیا جائے۔ اس لئے کہ اس وقت ہمارے ملک کو ایک ایک پائی کی ضرورت ہے جس کی بچت کے لئے اوپر سے آغاز کرنا ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پبلک سیکٹر کے 200کے قریب اداروں میں500ارب روپے کا سالانہ خسارہ مزید بڑھنے کی طرف رواں دواں ہے ۔یہ نقصان روزانہ1.5ارب روپے اور 10لاکھ فی منٹ کے حساب سے ہورہا ہے اگر منٹوں کے حساب سے دیکھا جائے تو ایک سال میں525,600منٹ بنتے ہیں۔ موجودہ حکومت 5جون سے قائم ہوئی ہے اس لحاظ سے صرف اس کے دور میں135سے140ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہ صورتحال ہر لحاظ سے پریشان کن ہے۔ پاور سیکٹر ہو یا انرجی سیکٹر جو دیگر قومی ادارے ہر طرف تباہی اور بربادی ہے اس کی ذمہ داری ہماری ریاستی اشرافیہ ہے جو کمزور گورننس اور کرپشن کی وجہ سے کچھ بھی نہیں کررہی۔ یہ بات تسلیم کرلینی چاہئے کہ قومی ادارے روز روز نہیں بنتے انہیں بہتر مینجمنٹ کے ذریعے چلانے کے لئے سخت قانونی اور انتظامی اقدامات پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے دوستوں کی خواہشات پر ادارے فروخت کرنے یا انہیں دینے کی روایات کا وقت گزر چکا ،اب تو وقت ہے ادارے بچانے کا اور انہیں صحیح سمت میں چلانے کا۔
تازہ ترین