• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اپنی تاریخ کے مکمل طور پر تبدیلی کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، اس سماجی، سیاسی تغیر کو روکا جا سکتا ہے نہ ریورس کیا جاسکتا ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ تبدیلی کے اس عمل میں سیاسی قوتیں، ذمے دار طاقت ور ادارے، میڈیا اور رائے ساز سیاسی دانشور اور تجزیہ کار ہی شامل ہیں۔ روایتی سیاسی تبدیلیوں سے ہٹ کر اب عوام نے اس میں اپنا حصہ خود شامل کرلیا ہے۔ یہ انقلاب آفریں تبدیلی فقط ٹیکنالوجی سے ہی ممکن نہیں ہوئی، جو بلاشبہ اس برپا ہوتی تبدیلی کی بڑی اور مصدقہ وجہ ہے، جس پر کسی مباحثے اور تحقیق کی ضرورت نہیں لیکن اس سے بڑھ کر جنریشن گیپ اس سے بھی بڑی وجہ ہے۔ ہمارے پلتے بڑھتے بچوں نے اسی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی بدولت وہ کچھ حاصل کرلیا جو ہم بڑوں نے اپنے سرپرستوں، والدین، مخلص اور فرض شناس اساتذہ سے بھی حاصل نہیں کیا۔

ان کی سوچ آزادانہ اور تجزیے اپنے حاصل ہوتے تجربات اور مشاہدے (کہ زمانے میں کیا ہو رہا ہے جس سے یہ مکمل شناسا ہوتے جا رہے ہیں) کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ ان کی رائے میں ایٹ لارج یکسانیت اور فیصلوں میں حقیقت پسندی کا عنصر غالب ہے۔ کسی مخصوص ذریعہ ابلاغ سے ان کو متاثر کرنا، ان کی رائے اور فیصلوں پر اثر انداز ہونا اتنا آسان نہیں جتنا ہم بڑوں کو، زورِ ابلاغ سے بڑے بڑے مقصد حاصل ہو جاتے تھے۔ یہ فیصلوں تک نہیں اپنی پوزیشن آپ لینے والی نسل اور جو پوزیشن بنا رہی ہے اس پر قائم رہنے والی ہے۔ تبھی تو گھروں، بازاروں، ایک ہی گائوں، ایک برادری بیلٹ میں، ایک فیصلے اور ذات میں سیاسی رائے اور فیصلوں کی DIVERSITY سریت کرتی جا رہی ہے۔ روایتی یکسانیت، وابستگیوں اور اجارہ داریوں میں دارڑیں پڑ رہی ہیں۔ اس چٹخ پٹخ سے ایک سیاسی ہنگامہ برپا ہے۔ ہماری قومی سیاسی تاریخ کا یہ وہ مرحلہ ہے جس میں ہم جتنے حقیقت پسندانہ ہوں گے جتنے تجزیے علمی اور عقلی بنیاد پر کریں گے، ذاتی اور گروہی وفا سے ہٹ کر جتنا اجتماعی ضروریات اور احساسات کا پاس کریں گے، اتنے بہتر پالیسی سازی سے لے کر اب ووٹ دینے تک کے فیصلےدرست کر پائیں گے۔ اب ابلاغ کا زور ایک حد تک ہی اپنا کام دکھائے گا اور اس طاقت پر کونسی اجارہ داری یا غلبہ برقرار رہ گیا ہے، اس کی بھی تو تقسیم ہوگئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کا حیرت انگیز اور آناً فاناً بلند درجے پر شیئرڈ ہو جانا ہی تو قومی سیاست میں حیرت انگیز تبدیلیوں کا بڑا سبب بن رہا ہے جس میں پلتے بڑھتے بچے ماں باپ پر اثر انداز اور خود منظم ہو رہے ہیں۔ ’’سٹیزن جرنلزم‘‘ نے مین سٹریم میڈیا کو چیلنج کر دیا ہے۔

انہوں نے برادریوں، پارٹی وفاداریوں، پیٹی بھائیوں کے مقابل اپنے یکساں انداز فکر، اپنی بڑھتی پھیلتی ضرورتوں اور اس کے مراعات یافتہ طبقے سے موازنے کی بنیاد پر اپنے اپنے PEER GROUPS سے اپنی گہری اور قریب ترین سوشلائزیشن کی بنیاد پر اپنے ادارے خود قائم اور سماجی بھی کرلیے ہیں۔یہ آزاد بھی ہیں اور منظم بھی۔ سیاسی بھی ہیں اور سماجی بھی، لیکن کسی روایتی ذریعے سے متاثر نہیں۔ ان کی اپنی سوچ اور فیصلوں سے تشکیل ہوتی سیاسی اپروچ کی بنیاد پر جو تبدیلی برپا ہو رہی ہےاس میں ذمے داری خلوص، اجتماعی فکر اور حب الوطنی بھی ہے۔ غیر ذمے داری، ناپختگی اور ناتجربے کاری کا عنصر بھی برابر کا ہے۔ جسے ذمے داری، پختگی اور قیمتی تجربے کے ساتھ جوڑنا محال ہوتا جا رہا ہے، جو ہماری اولین، فوری اور بہت حساس قومی ضرورت بن گئی ہے۔ خصوصاً قومی سیاست کے اس تیز تر عمل میں جس میں ہم نے اپنی نئی نسل کو سخت مایوس کیا ہے اور وہ ہماری مکاریوں، خود غرضی،لالچ اور گروہی سوچ اپروچ کو خوب سمجھ رہی ہے۔

متذکرہ مشاہدے و مطالعے اور علمی اور پیشہ ورانہ نوٹس کی بنیاد پر مکمل تشویش کے ساتھ خاکسار جاری نظام بد میں سے عود آنے والی اس تلخ ترین اور فوری توجہ کی طالب حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے سب ریاستی ذمے دار اداروں کی سکت، کارکردگی اور اعتبار میں انحطاط کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ اس پر فوری سیاسی و دانشورانہ توجہ شدت سے مطلوب ہے۔ پاکستان رہنمائی کا طالب ہے اور موجود رہنما سمجھے جانے والے سب کے سب سخت متنازعہ۔ تقسیم اور اختلاف جمہوری نہیں رہا، اس میں انتشار کے خطرناک عناصر کی آمیزش ہوتی جا رہی ہے۔ اجتماعی رہنمائی اور ابل پڑنے والے آئینی و سیاسی مسائل کی نشاندہی پاکستان کے صرف استحکام کے لیے نہیں سلامتی کے بنیادی تقاضے پورے کرنے کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے۔

نئے ابھرتے بہت کڑوے اور مہلک قومی سیاسی حقائق کی اصل حقیقت کو سمجھنے اور نئے چیلنجز سے نپٹنے کے لیے ہمیں یکساں محترم اکابرینِ ملت، خالص پاکستانی تنظیموں اور فلاحی اداروں، عملی سیاست کو ترک کئے محترم سیاستدانوں، علماء و دانشوروں، بیرون ملک آباد وطن کا حقیقی درد رکھنے والے ماہرین تعلیم اور بڑے بڑے پروفیشنلز اور ان کی تنظیموں، حقیقی نمائندوں اور ویژنریزسے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں آگے آنے کے لیے آمادہ کرنا ان سے رابطے اور انہیں ایک عبوری پلیٹ فارم پر لانا ملک و قوم کی بڑی حساس، فوری توجہ کی طالب ضرورت ہم سب کی منتظر ہے۔ کیا ہماری یونیورسٹیاں، تھینک ٹینکس، قومی سطح کے فلاحی محترم و بااعتبار ادارے، مانے جانے اور گوشہ نشین پوٹینشل تجربے کار شہری، ایسا پلیٹ فارم ہنگامی بنیاد پر تشکیل دینے میں اپنا تعاون فراہم کرسکتے ہیں؟ کیا ہماری 22 کروڑ کی ایٹمی مملکت میں سے خالصتاً قومی سوچ کے حامل دیانت دار، اہل، بااعتبار اور آمادہ سوڈیڑھ سو شہریوں اور تنظیموں کی نشاندہی کوئی بھی شہری، تنظیم، سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ کرسکتا ہے کہ عظیم تر کارخیر کا آغاز کیا جائے؟

تازہ ترین