• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب میر جعفر قرار دے دیا یعنی کہ ان کے شوشے کے مطابق امریکہ نے ان کو اقتدار سے رخصت کرنے کی غرض سے ایک موجودہ دور کے میر جعفر کو استعمال کیا ہے اور انہوں نے میر جعفر کی تشریح کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی رخصتی کا باعث بنے والوں کو میر جعفر قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ وہ میر جعفر کس کو قرار دے رہے ہیں۔ وہ اقتدار پر براجمان تھے اور ان کے خیال میں، جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے رہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے یعنی وہ یہ گمان کر بیٹھے تھے کہ انہوں نے اپنے کرم فرماؤں کو بھی بند گلی میں داخل کر دیا ہے اور اب کسی کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا حالانکہ ایک راستہ موجود تھا اور سب سے مناسب بھی کہ غیر جانبداری کا راستہ اختیار کر لیا جائے اور سیاست کو اس کے فطری بہاؤ کا موقع فراہم کیا جائے۔ اور یہی راستہ اختیار کیا گیا۔ خیال رہے کہ مستقبل میں بھی یہی راستہ اختیار رکھنا چاہئے جو کہ صوابدیدی نہ ہو بلکہ فرض ہو کہ اسی پر چلنا ہے۔ بہرحال اس کے بعد میر جعفر کی اصطلاح کا استعمال سامنے آیا ہے۔ میر جعفر کون تھا اور اس کا کردار اور خواہش کیا تھی۔

اس کی خواہش یہی تھی کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار کی گدی پر براجمان ہو جائے اور اسی مقصد کی خاطر اس نے بنگال کے اقتدار اعلیٰ کو گنوايا اور غیر ملکی طاقت کے لئے یہ ممکن کر دیا کہ وہ بنگال کے سیاہ و سفید کی مالک بن جائے۔ وطن عزیز میں بھی معاملہ یہ ہے کہ اپنے اقتدار کو بچانے اور اب اقتدار میں واپس آنے کی غرض سے غیر ملکی طاقتوں کو اس انداز سے منسلک کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایسے محسوس ہو جیسے پاکستان ایک آزاد ملک نہیں بلکہ دو طاقتوروں کے درمیان اس معاملے کی کشمکش جاری ہے کہ کون ہمیں اپنی کالونی بناتا ہے اور کس سے ہماری مخالفت ہو جاتی ہے۔

حالانکہ معاشی اور تزویراتی مفادات کی غرض سے پاکستان کے مختلف ممالک سے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کو اسی نہج سے دیکھنا چاہیے اور کسی ایک کی خواہش یا اسے خوش کرنے کی غرض سے دوسرے سے تعلقات کو داؤ پر نہیں لگا دینا چاہئے۔ گزشتہ حکومت برسراقتدار آئی تو اس نے سی پیک کو ایک معاشی مثبت تبدیلی کے طور پر دیکھنے کی بجائے صرف اس نظر سے دیکھا کہ امریکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو اور اس کے اہم ترین منصوبے سی پیک کو اپنے مفادات کے لئے مناسب نہیں خیال کر رہا، اس لیے اس کو عوام کی نظروں میں متنازع بنا کر کام کی رفتار کو سست کر دیا گیا تاکہ امریکہ کو خوش کیا جاسکے۔ ایم ایل ون کی بار بار مثال دیتا ہوں اور اس وقت تک اس کا ذکر کرتا رہوں گا جب تک اس پر کام حقیقی معنوں میں شروع نہیں ہو جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر چین پاکستان تعلقات کو دھچکا لگا اور پاکستان کی قومی معیشت سنبھالنے کے لئے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا اس کو بھی شدید نقصان پہنچا اور قومی معیشت روز بروز گڑھے میں گرتی چلی گئی۔ اصل مسائل کو حل کرنے کی بجائے وزرائے خزانہ تبدیل کئے جاتے رہے جو کہ خود بھی اصل مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ انتظامی طور پر اہلیت کا فقدان اس قدر تھا کہ پنجاب میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس ایسے تبدیل ہوتے رہےجیسے ریستورانوں کا مینو تبدیل ہوتا ہے جب یہ تبدیلی مکمل تباہی بن چکی تو کرسی کا کمزور ہونا نوشتہ دیوار بن گیا اور نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی غرض سے پہلے ونٹر اولمپکس میں پہنچ گئے اور پھر دور ہ ماسکو پر چلے گئے تاکہ ایک نئی کہانی تخلیق ہو سکے اور اس پر شور شرابہ کیاجا سکے جیسے کبھی 35 پنکچر والی کہانی سنائی گئی تھی اور پھر بس ہنس کر کہہ دیا تھا کہ یہ تو بس ایک کہانی تھی۔

دورہ ماسکو کے حوالے سے ایک اور بھی شوشہ عمران خان نے چھوڑا ہے کہ وہاں سے ہمیں گندم اور تيل کم قیمت پر مل رہا تھا اس لئے میں گیا تھا۔ جب دونوں ممالک کے درمیان ایسی کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو اس پر سرکاری اداروں میں فائل ورک کیا جاتا ہے، دوسرے ممالک کے جواب کو اس کے ساتھ محفوظ کیا جاتا ہے کہ وہ اس پر قائل ہوگئے تھے یا یہ کوئی زبانی کلامی بات تو ہوتی نہیں ہے۔ مگر اس سارے شور شرابے میں کہ روس ہمیں گندم اور تیل کم قیمت پر دے رہا تھا ایک ورق بھی سرکاری ریکارڈ میں موجود نہیں اگر ایک بھی ایسا ورق موجود ہے جس میں روس نے کم قیمت پر گندم تيل دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی تو وہ اسے عوام کے سامنے پیش کر دیں مگر وہ ایسا نہیں کرسکیں گے کیونکہ سفارتی تعلقات کو چاہے وہ چین ہو امریکہ یاروس، صرف اپنی حکومت کو بچانے کے لئے اور اب اقتدار میں واپس آنے یا کم ازکم کرپشن کیسز سے نکلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اورایسے استعمال سے وطن عزیز کو خارجہ محاذ پر جس سبکی اور مشکلات کا سامنا ہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد میر جعفر کون ہے پہچاننا مشکل نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین