• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے قصے میں اپنے لمبے ہاتھ اور چھوٹے قد کی باتیں بتاتے ہوئے پاکستان کے ایک ایسے صدر کا ذکر نکل پڑا تھا جن کو موم بتی کی لو میں دیواروں پر لرزتے ہوئے سایوں سے ڈر لگتا تھا۔ اس لئے جب بھی ایوان صدر کی بجلی پراسرار طور پرغائب ہو جاتی تھی وہ موم بتی جلانے نہیں دیتے تھے انہیں اندھیروں سے بھی ڈر لگتا تھا اس لئے جب تک بجلی آئے تب تک وہ تھر تھر کانپتے رہتے تھے۔ شروع شروع میں ایوان صدر کی بجلی جب اچانک غائب ہو جاتی تھی تب بجلی کے محکمے کے افسران کی شامت آتی تھی ان کی خوب کھنچائی ہوتی تھی، ان کے تبادلے کر دیئے جاتے تھے، ان کو معطل کر دیا جاتا تھا کچھ افسران تو صدر صاحب کے خلاف منصوبہ بندی کے الزام میں دھر لئے گئے تھے ایوان صدر کی سیکورٹی پر مامور عملے کا ماتھا تب ٹھنکا جب بجلی جانے کے بعد نہ تو جنریٹر چل پڑتے تھے اور نہ ہی ایمرجنسی لائٹیں خود بخود آن ہوتی تھیں دیکھتے ہی دیکھتے ایوان صدر اندھیروں میں ڈوب جاتا تھا۔ صدر صاحب اندھیروں میں تھر تھر کانپنے لگتے تھے، لیکن موم بتی جلانے نہیں دیتے تھے موم بتی کی لو سے دیواروں اور چھتوں پر بننے والے لرزتے اور لپکتے سایوں سے انہیں ڈر لگتا تھا۔ ان کے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ سنانے والے سناتے ہیں اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ صدر صاحب باتھ روم میں تھے تب اچانک بجلی غائب ہوگئی تھی ۔ مبینہ طور پر صدر صاحب کی چیخیں نکل گئی تھیں ان چیخوں کی فریکوئنسی اس قدر دوررس تھی کہ اس کی گونج واشنگٹن کے وائٹ ہائوس میں سنائی دی تھی امریکی صدر نے فوراً ہمارے صدر سے رابطہ قائم کرنے کے بعد انہیں یقین دلوایا کہ امریکہ ان کے ساتھ ہے کسی کو ان کا بال بیکا کرنے نہیں دیں گے۔ امریکی صدر نے ہمارے صدر کو یقین دہانی کے بعد یہ کہہ کر حیران کر دیا تھا کہ ’’لگے رہومنا بھائی‘‘۔
جدید انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے اصولوں کے مطابق نام تو دور کی بات ہے میں آپ کو اشارتاً اندازہ لگانے نہیں دوں گا کہ میں سابقہ کس صدر صاحب کا ذکر خیر کر رہا ہوں۔ آپ میچ فکسنگ میں کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں آپ متذکرہ سابق صدر صاحب کے بارے میں کچھ نہیں جان پائیں گے، شرط لگا لیں۔
نہ جانے کیوں ہمارے چھوٹے بڑے حکمران اور افسران پیروں، فقیروں، سنیاسی باوائوں کے معتقد ہوتے ہیں اور تعویز گنڈوں میں پختہ یقین رکھتے ہیں طرح طرح کے نگینوں اور کراماتی پتھروں سے جڑی تین تین چار چار انگوٹھیاں انگلیوں میں پہنے رکھتے ہیں۔ سابق صدر کے ایڈوائزر کو میرے بارے میں کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا تھا۔ میرا حلیہ اور ڈیل ڈول ہی کچھ ایسا ہے میں ہر زاویئے سے ستر سالہ سنیاسی باوا لگتا ہوں، حالانکہ میں اسّی برس کے لگ بھگ ہوں پھر بھی سب مجھے ستر سالہ سنیاسی باوا سمجھتے ہیں۔ وہ منتظر ہیں کہ ستر سالہ سنیاسیوں کی طرح میں ایک روز الوپ ہو جائوں گا یعنی غائب ہو جائوں گا آٹھ برس ہو گئے ہیں جب میں ستر سال کا ہوا تھا میں اب تک الوپ نہیں ہوا دو برس بعد اگر میں زندہ رہا اور اسّی سال کا ہوا تب بھی میں الوپ نہیں ہوں گا۔ الوپ اصلی اور سچے سنیاسی باوا ہوتے ہیں، وہ بھی سترسال کی عمرمیں اصلی اور سچے سنیاسی باوا کبھی بھی اسّی سال کے نہیں ہوتے میں اپنے حلیہ سے سنیاسی باوا لگتا ہوں مگر میں سنیاسی باوا نہیں ہوں مانا کہ میں جھوٹا ہوں مگر میں ٹھگ اور منافق نہیں ہوں۔ میری دسترس میں کسی قسم کی کرامات نہیں ہیں میرے مہربان ، نامہربان، میرے دوست، میرے دشمن جو اچھنبے میں ڈالنے والے میرے کاموں کو میری کرامات سمجھتے ہیں وہ سب غلط فہمی کا شکار ہیں میں آج ان کی غلط فہمی دور کر دینا چاہتا ہوں میں نے آج تک جتنے بھی کارنامے سر انجام دیئے ہیں وہ میرے لمبے ہاتھوں کا کمال ہیں۔ رام نے بنواس میں چودہ برس گزارے تھے میں نے اسلام آباد کے بنواس میں اٹھائیس برس گزارے ہیں ان اٹھائیس برسوں میں اسلام آباد کے بنواس میں طرح طرح کے بندروں اور بن مانسوں سے میری ملاقات ہوئی تھی ملاقاتیں راہ و رسم میں بدل گئی تھیں راہ و رسم نے دوستی کی صورت اختیار کر لی تھی ان کے ساتھ گاڑھی چھننے لگی تھی، بندروں اور بن مانسوں کے ساتھ گاڑھی چھانتے ہوئے میرے ہاتھ لمبے ہو گئے تھے۔ بنواس کے دوران میں نے بیگانے گھوڑوں کو گھاس ڈالا تھا۔ بیگانے گھوڑے چالاک تھے انہوں نے گھاس ڈال کر مجھے گھوڑا بنا دیا، میں سندھ میں ان کا معتبر گھوڑا ہوں۔ اسلام آباد میں وہ میرے معتبر گھوڑے ہیں اسلام آباد کے بارے میں اندر کے قصے اور کہانیاں وہاں آباد میرے گھوڑے مجھے بھیجتے ہیں قصے اس لئے مستند ہوتے ہیں کہ گھوڑوں کے منہ سے نکل کر براہ راست مجھ تک پہنچتے ہیں اس کو انگریزی میں کہتے ہیں From hourses mouth وہ مجھے سچی خبریں بھیجتے ہیں میں سندھ کے بارے میں ان کو سچی خبریں بھیجتا ہوں وہ میری پیٹھ کھجاتے ہیں میں ان کی پیٹھ کھجاتا ہوں۔ اسلام آباد والوں کے بارے میں سچی کہانیاں پڑھ کر لوگ مجھے سچ مچ کا ستر سالہ سنیاسی باوا سمجھتے ہیں گھوڑوں سے مراسم اور لمبے ہاتھوں کے کمال کو میری کرامات سمجھتے ہیں آج میں نے ان کی غلط فہمی دور کر دی ہے سابق صدر صاحب کے ایڈوائزر بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہو کر میرے پاس آئے تھے اور ایوان صدر میں اچانک گھپ اندھیرا ہو جانے کا سدباب تلاش کرنے آئے تھے وہ مجھے اپنے ساتھ اسلام آباد لے جانا چاہتے تھے اسلام آباد میں کاٹا ہوا اٹھائیس سالہ بنواس مجھے یاد تھا میں نے انکار کرتے ہوئے ایڈوائزر سے کہا ’’میرے اسلام آباد جانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے میرے ہاتھ بہت لمبے ہیں میں یہیں سے کراچی سے ایوان صدر پر چھا جانے والا اندھیرا دور کردوں گا‘‘۔
تصدیق کرنے کے لئے آپ میرے ہاں آئیں اور خود آکر دیوار پر آویزاں سابق صدر کے ایڈوائزر کا میرے نام تعریف نامہ یعنی تعریفی خط دیکھیں بلکہ ملاحظہ کریں۔ اپنے تعریفی خط میں انہوں نے لکھا کہ ’’اب ایوان صدر کی بجلی غائب نہیں ہوتی۔ بس کبھی کبھار کوئی سیکورٹی گارڈ غائب ہو جاتا ہے‘‘۔
اگلے قصہ میں آپ کو میں آل پارٹیز کانفرنس سے پہلے اور پارٹی کے بعد ہونے والی دو خفیہ میٹنگوں میں کئے گئے فیصلوں سے آگاہ کروں گا دل تھام کر اگلے منگل کا انتظار کسی جنگل میں جا کر کیجئے۔
تازہ ترین