• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ جب یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 68ویں سالانہ کانفرنس میں شرکت کرنے نیویارک پہنچ چکے ہوں گے،جس کی ریاستی اداروں اور سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں گمشدگیوں کے خلاف عالمی قرارداد پر پاکستان دستخط کرنے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے مگر وہ اس کی توثیق سے اب تک گریزاں ہے۔ اس وقت پاکستان کاایک بڑا مسئلہ جس کی سپریم کورٹ نے بھی نشاندہی کی ہے ملک میں خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں گمشدہ شہریوں کا بھی ہے اور نوازشریف اس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے پہنچ چکے ہیں جس کی مذکورہ عالمی قرارداد کی توثیق کرنے سے ہم اب تک پس و پیش سے کام لیتے رہے ہیں۔ میں اس دن کسی نوجوان پاکستانی سفارتکار سے بات کر رہا تھا وہ کہنے لگے ’’ہمیں جنیوا اور ایسے دوسرے فورموں پر بھی پاکستان میں گمشدگیوں کے متعلق کھینچا جاتا ہے حالانکہ بھارت نے بھی تو سیکڑوں کشمیریوں کو لاپتہ کر کر رکھا ہے یعنی بھارت سے مسابقت میں ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی اس سے بھی آگے نکل جانا چاہتے ہیں۔ بھارت نے اگر کشمیر میں سیکڑوں کشمیری غائب کئے ہوئے ہیں کہ جن کے بے نام و نشان کتبے اور قبریں ہیں تو ہم نے بلوچستان اور سندھ سمیت ملک بھر میں شہری غائب کئے ہوئے ہیں، تھوک کے حساب سے۔ سونے پر سہاگہ کہ اب ہم اپنے ظالمانہ مجوزہ قوانین اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کا موازنہ امریکہ کے پیٹریاٹ ایکٹ اور گوانتاناموبے سے کرتے ہیں! امریکہ نے القاعدہ سے بات چیت نہیں کی جس طرح ہماری حکومت طالبان سے کرنے کو بے چین ہے۔نوازشریف اس طرح حکومت کر رہے ہیں جس طرح نوازشریف حکومت کرتے تھے۔ اصلی تے وڈے دہشت گردوں کو تو بہت ہی عاجزی اور انکساری سے مذاکرات کی پیشکش لیکن کراچی کیلئے رینجرز اور ایف سی پولیس کے اختیارات کے ساتھ، نواز شریف نے غیر اعلانیہ طور پر کراچی کو وفاق کے زیر کنٹرول دے رکھا ہے لیکن برائے نام سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اس کے انچارج ہیں۔ سابق صدر اور سندھ میں حکمران پاکستان پیپلزپارٹی کے اب سربراہ آصف علی زرداری تخت لاہور میں اپنے ایک اور قلعے نما محل میں خزاں اور سرما کے مزے لوٹنے پدھار چکے ہیں۔ وہ چاہے کتنی ہی تردید کریں کہ لاہور کا بلاول ہائوس انہوں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کرایا ہے لیکن غیرتصدیق شدہ افواہیں تھیں کہ ایسا محل انہیں کسی نے تحفے میں دیا ہوا ہے جس کی بعد میں پرزور تردید کردی گئی تھی اسی طرح کراچی والے بلاول ہائوس کیلئے لوگ کہتے تھے کہ انہیں ایک صنعت کار نے تحفے میں دیا تھا۔ کب دریائوں اور لوگوں کے منہ کس نے بند کئے ہیں بھلا!وہی باری باری میوزیکل چیئر کا اور الیکٹرانک سگریٹ کا مزہ۔ نہ اپوزیشن کا بانس رہا ہے نہ اپوزیشن کی بانسری۔ تو پس ثابت ہوا کہ پیپلزپارٹی جو خراب حکومت کرنے کا تجربہ تو رکھتی ہی تھی اور جس کے لئے مجھے اب بھی یہ وہم ہے کہ وہ ملک میں اپوزیشن کا سب سے بہتر کردار ادا کرسکتی تھی وہ بھی بغیر لگی لپٹی آپ سے کہتا چلوں کہ اپنے باس پر مزید مقدمات نہ بنائے جانے کی مصلحت میں سندھ کو رینجرز کے تھانیداروں کے حوالے کر چکنے پر راضی ہوچکی ہے۔ بقول شاعر:
جب خون کافی بہہ گیا
تب ان میں سمجھوتہ ہوگیا
یہ گائوں میرا ہوگیا
وہ شہر تمہارا ہوگیا
پیپلزپارٹی جب برسراقتدار تھی تو متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اپنی قومی مصلحت یا ری کنسی لیئشن کے نام پر اقتدار چھوٹ جانے کے خوف سے سات کیا سات سو خون بھی معاف کر رکھے تھے اب اس عمر میں جیل جانے کے خوف سے سندھ میں اپنا مینڈیٹ دیتے ہوئے بھی صوبہ مسلم لیگ نون کے تھانیداروں کے حوالے کیا ہوا ہے۔کبھی سندھ سے رحمن ملک سندھ کے وائسرائے لگے ہوئے تھے اور اب چوہدری نثار۔ لیکن موجودہ حکمران نون لیگ کے ہیں کہ طالبان اور ایسے دہشت گرد گروہوں کو سات ہزار خون معاف کرنا چاہتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بشمول اندرون سندھ تمام سندھ اور باقی ملک میں دودھ اور شہد کے نہریں بہہ رہی ہیں باقی صرف کراچی ہے کہ ملک کا رستا زخم بنا ہوا ہے۔ وہ بھی کراچی میں لے دے کر لیاری! کیا تخت لاہور میں چھوٹے اور معصوم بچوں سے جنسی زیادتیاں سخت آپریشن کا تقاضا نہیں کرتے۔
یہ وہی کراچی ہے جہاں سے ملا عبد الغنی برادر پکڑا گیا تھا اور دن کے آخر تک اسے رہا کردیا گیا ہے۔
کراچی میں رینجرز کی موجودگی میں لیاری امن تحریک کا رہنما اور دادا لوگوں کا رنگ لیڈر ظفر بلوچ قتل کردیا گیا۔ دو پولیس والوں کے قتل میں گرفتار کئے جانے والے ایم کیو ایم کے سابق رکن صوبائی اسمبلی کو ایک دن کی خوں آشام ہڑتال کے بعد باعزت رہا کردیا گیا اور آپریشن ٹارزن کے سفر کی طرح جاری ہے لیکن آخر میں مطلوبہ نتائج وہی نکلیں گے جو اسلام آباد میں اپنا ٹائم پاس کرنے والے چاہتے ہیں یعنی وہی انیس سو بیانوے والے اور بڑے پیمانے پر خون خرابہ اور انسانی حقوق کی بہیمانہ خلاف ورزیاں۔ڈبل سواری میں پکڑے جانے والے نوجوانوں کو ان کی موٹر سائیکلوں کے گرم سائلنسر ان کے ہونٹوں سے چموانے کا نام اگر آپریشن تھا یا کاٹن کی شلوار قمیص اور بیس بال ٹوپی الٹے پہن کر گھومنے والے نوجوانوں کی کراچی میں اور بڑے پائنچوں والی شلواروں اور بڑی مونچھوں والے گوٹھوں کے باسیوں کی اندرون سندھ پکڑ دھکڑ کا نام آپریشن تھا۔ رینجرز بھی وہی ہے پولیس بھی وہی لیکن نہ کراچی کی صورتحال بدلی نہ اندرون سندھ کی۔ انیس سو نوے کی دہائی میں نواز شریف کی حکومت تھی کہ بے نظیر بھٹو کی دونوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ماورائے عدالت قتل میں ایک دوسرے سے بازی لے جانی چاہی، کسی کا بھی ریکارڈ بہتر نہیں تھا۔
ایسا بھی نہیں کہ کراچی اور سندھ پولیس میں سب کے سب افسر و جوان نااہل کرپٹ اور ظالم ہیں۔ ایک سو سے زائد کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس والوں (افسر چاہے جوانوں) کا شہری لسانی دہشت گردوں کے ہاتھوں ہٹ لسٹ لیکر قتل عام بتاتا ہے کہ یہ پولیس والے فرض شناس تھے اور اپنی لائن آف ڈیوٹی میں کام آئے۔صوابی کے ایف سی اور چیچہ وطنی یا فیصل آباد کے رینجرز والے سے کراچی کی گلیوں کو کراچی اور سندھ کا پولیس افسر زیادہ سمجھتا تھا۔ کراچی کا مسئلہ ہی تب سے شروع ہوا ہے جب سے کراچی میں پولیس غیر مقامی لائی گئی تھی۔
لیکن ماورائے عدالت قتل، گمشدگیاں اور دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم یا کرفیو کراچی میں بہت لگ چکے۔ ’’لوگو! تمہارے سر پک چکے اب ضروری ہے کہ تمہارے سروں کی فصل اتاری جائے‘‘ حجاج بن یوسف نے کہا تھا۔ پھرکیا ہوا بغداد پھر وہی بغداد ہے۔ کراچی کا مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ کراچی بغداد و دمشق نہیں ہے۔ کراچی کو بیروت بننے سے بچایا جائے۔ کراچی سمیت سندھ انسانی حقوق کی بہیمانہ خلاف ورزیوں کا کھلا میدان ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ واقعی سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ ’’ہم پر تخت لاہور کا راج ہے؟‘‘ ’’اساں قیدی تخت لہور دے؟‘‘
تازہ ترین