• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے حکمران ،ان کے رفقار کار، اصل اور تا قیامت حاکم یعنی بیوروکریسی سب کا زور اس بات پر تو ضرور ہوتا ہے کہ اپنے دور اقتدار میں کوئی ایسا کارہائے نمایاں سرانجام دیں کہ دنیا یاد رکھے۔ ویسے حقیقت بھی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ہر محکمے نے ایسے ایسے کام کئے جو یقیناً رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ ہمیں اپنے ایک پرانے دوست جو کہ بہت بڑے بیوروکریٹ ہیں ان کی بات یاد آتی ہے کہ ہمیں تو دنیا کے ان ممالک کو جن کو بڑا ناز ہے کہ ان کے ہاں کوئی کرپشن نہیں، ان کے سارے محکمے زبردست کام کررہے ہیں۔ ہمارے چند بیوروکریٹس کو لے جائیں، پھر دیکھیں دنوں میںان کے کئی محکمے ڈوب جائیں گے اور دنیا یاد کرے گی کہ پاکستان میں کیسے زبردست ماہرین اور بیوروکریٹس ہیں۔
خیر چھوڑیں اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ ایک عرصہ سے حکومت سوچ رہی تھی کہ پنجاب میں صحت کی خدمات کو بہتر بنانے اور عطائیت کو ختم کرنے کے لئے کوئی ایکٹ بنایا جائے اور ایک باڈی بنائی جائے جو صحت کے نظام کو بہتر کرے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہیلتھ کیئر کمیشن بننے کے باوجود مسائل جوں کے توں ہیں اور اس ایکٹ میں کئی ایسی شقیں ہیں جن پر اگر عملدرآمد کردیا جائے تو 80 فیصدسرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال اور کلینک بند ہوجائیں گے۔ یہ تو کہا گیا ہے کہ 2013سے2018تک تمام سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتال ا ور کلینک رجسٹرڈ کرانے ہوں گے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو حکومت عطائیت کے خلاف آواز بلند کررہی ہے، دوسری طرف عطائیوں اور حکیموں تک کے کلینک رجسٹرڈ کررہی ہے۔ یعنی ان کو تسلیم کیا جائے اس وقت پورے ملک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسے نیم حکیم اور عطائی ہیں جو لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں۔ کتنے عطائیوں ،جعلی حکیموں، جعلی ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے خلاف یہ کمیشن ایکشن لے چکا ہے؟ اگر ان کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو افسوس ہوگا۔ اس ایکٹ میں اس بات پر زوردیا جارہا کہ مریضوں کوتمام سہولتیں اور تحفظ دیا جائے گا، مگر دوسری طرف یہ بھی بتایا جائے کہ روس اور چین کے مختلف میڈیکل کالجز اور ملک کے اندر موجود بے شمار غیر معیاری پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے جو ڈاکٹرز بن کر آرہے ہیں ،جن کی عملی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے جو مریضوں کی جانوں کو بچانے کی بجائے انہیں موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں اس کا ذمہ دار کون ؟ غلط تشخیص تو ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر کرے گا، نرس مریض کو صحیح طرح ڈیل نہ کرسکے ، اس کی سزا اور جرمانہ پرائیویٹ ہسپتال کے مالک کو کیا جائے۔پرائیویٹ ہسپتالوں میں اس وقت تمام نرسیں حکومتی نرسنگ اداروں سے پڑھ کر اور تربیت حاصل کرکے آرہی ہیں۔ کیا ان نرسوں کی تربیت اس حد تک مکمل ہے کہ وہ کسی بھی عام مریض اور پیچیدہ مریض کو سنبھال سکیں؟حالات یہ ہیں کہ ہمارے ڈاکٹروں اور نرسوں کی اکثریت عام مریضوں کو بھی سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس وقت سوائے ایک دو پرائیوٹ اداروں کے باقی تمام سرکاری ادارے ہی نرسوں کی تربیت کررہے ہیں اور تربیت کا معیار کسی طور بھی بین الاقوامی معیار کا نہیں۔ہیلتھ کیئر کمیشن اس بات کی بھی تحقیق کرے کہ جو ڈاکٹر سی ایس ایس کرکے اپنا پروفیشن چھوڑ چکے ہیں اور سرکاری خزانے کے لاکھوں روپے ضائع کئے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟اگر ایک مریض پہلے کسی دوسرے ہسپتال سے علاج کروا کر آتا ہے پھر کسی اور ہسپتال میں ایمرجنسی میں آجاتا ہے ۔ اس کے پہلے علاج کی وجہ سے جو پیچیدگیاں ہوئی ہیں اور اس کے بعد والے ہسپتال کی ایمرجنسی میں آکر مرجاتا ہے تو ذمہ دار اس ہسپتال کا مالک ، پرنسپل، ایم ایس ہوگا چنانچہ آپ انہیں جرمانہ کردیں گے۔ ہسپتال بند کردیں گے اور سزا دیں گے۔ اب تک کتنے سرکاری ہسپتالوں کو علاج میں غفلت برتنے پر بند کیاگیا ہے ،کتنے سرکاری ہسپتالوں کے پرنسپلوں کو جرمانے کئے گئے؟
اب ہم اس نکتے کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ آج تمام سرکاری ہسپتالوں پر اس قدر دبائو ہے کہ وہاں کے سربراہوں کو سب سے زیادہ تو پروٹوکول ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے، پھر وہاں پر آئے دن کے جھگڑے، مسائل ، مریضوں کی مشکلات، بجٹ ،مشینوں کی خرابی، پھر سیکریٹریٹ سے بلاوے، بلاوجہ کی میٹنگیں ان حالات میں آپ کیسے کسی بھی سرکاری ہسپتال کے ایم ایس اور ٹیچنگ ہسپتالوں کے پرنسپلوں سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہاں پر حالات ٹھیک ہوں گے؟ تمام پروفیسرز اور پرائیویٹ ہسپتالوں کے مالکان رات کو اپنے گھروں میں اور بعض اپنے فارم ہائوسسز پر مصروف ہوتے ہیں اگر اس وقت کسی سرکاری ہسپتال یا پرائیویٹ ہسپتال کی ایمرجنسی میں کوئی ڈاکٹر علاج میں غفلت کرتا ہے ،کوئی نرس احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتی تو کیا آپ اس سرکاری ہسپتال کے ایم ایس ، پرنسپل یا پرائیویٹ ہسپتال کے مالک کو اندر کردیںگے ، یہ کہاں کا انصاف ؟جب آپ نے67برس میں شعبہ صحت کی ہر طرح سے تباہی و بربادی کردی اب آپ ڈنڈا لے کر اس کو راتوں رات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوگا، ہوگا کیا کہ آپ کے تمام قابل، لائق اور ذہین ڈاکٹرز یہاں سے بھاگ جائیں گے، پہلے آپ سسٹم کو درست کریں۔ بہترین دماغ پیدا کرنے والے اداروں کو وہاں پر کام کرنے والے پروفیسروں کو مضبوط اور عزت دیں۔ ہیلتھ کیئر کمیشن کی سفارشات یا نکات جس کسی نے بھی بنائے ہیں وہ بہت جلدی میں اور بغیر سوچے سمجھے بنائے گئے ہیں ۔ایک زخمی مریض ٹریفک میں وی وی آئی پی حضرات کی مہربانی سے بروقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتا۔ ایمبولینس میں یا اپنے عزیز اقارب کی گاڑی میں یا ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچ کر فوراً مرجاتا ہے تو کیا ہیلتھ کیئر کمیشن اس وی وی آئی پی کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے؟ کیا اس اہم شخصیت کو پانچ لاکھ جرمانہ(جو کہ ہیلتھ کیئر کمیشن نے یہ ہسپتال کی غفلت پر عائد کیا ہوا ہے) کرے گا؟ میڈیا میں آئے دن ایسی خبریں آتی ہیں کہ ایمبولینس وی آئی پی روٹ کی وجہ سے پھنسی رہی اور مریض مرگیا البتہ اس ہسپتال کے خلاف ضرور کیس ہوگا۔ جب تک ہمارے ملک میں وی آئی پی ،وی وی آئی پی کلچر رہے گا کوئی نظام درست نہیں ہوگا۔
سرکاری ہسپتالوں میں تو ایک مدت سے یہ وی وی آئی پی قابض ہیں۔ کسی بھی سرکاری ہسپتال کا ایم ایس ان کے آگے ہاتھ باندھے ہر وقت کھڑا رہتا ہے۔ اب انہوں نے پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ بھی کرلیا ہے۔ حکمران اور ان کے عزیز و اقارب جب بھی کسی پرائیویٹ ہسپتال میں آتے ہیں پرائیویٹ ہسپتال والے بے چارے مجبوراً ان کو ہر طرح کی سہولت دیتے ہیں اور پھر انہیں بعض اوقات پیسے بھی چھوڑنے پڑتے ہیں۔ حکمرانوں کے مریضوں کو دیکھنے کے دوران جو دوسرے مریض بے چارے متاثر ہوتے ہیں کیا ہیلتھ کیئر کمیشن کے پاس اس طرح کے سیاسی دبائو کو روکنے کا کوئی قانون ہے؟ ارے بھائی پہلے اپنے لوگوں کے روئیے درست کرو، پھر یہاں پر بہترین ڈاکٹرز اور نرسیں پیدا کرنے کا بندوست کرو۔ یقین کریں ہم نے خود دیکھا کہ نرسوں کو مریض کا بی پی دیکھنا اور انجکشن لگانا بھی نہیں آتا۔ کام خراب کرے نرس اور پکڑا جائے پروفیسر۔آج پورے ملک میں کوئی ہسپتال ایسا ہے جو پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے بہترین ہسپتالوں میں سے کسی ایک کا مقابلہ کرسکے؟ سرکاری ہسپتالوں کو بعض ڈاکٹروں نے ہی برباد کیا ہے۔ نام شہرت ، عزت تو کمائی سرکاری ہسپتالوں سے اور دولت کمائی پرائیویٹ ہسپتالوں سے۔ اب ہم ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں۔ کئی پرائیویٹ ہسپتال مریضوں کے غیر ضروری ٹیسٹ بھی کراتے ہیں۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ جبکہ دوسری طرف مریض کا بار بار خون لے کر اس کو جسمانی تکلیف بھی دی جاتی ہے ۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ ایک ہی مرتبہ خون لے کر جن جن بیماریوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں ان کا ایک ہی مرتبہ ٹیسٹ کرالیں۔
ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ میں ویسے تو بے شمار کمال کی باتیں ہیں۔ مثلاً اگر دوران آپریشن کوئی مشین خراب ہوگئی اور اس سے آپریشن خراب ہوگیا۔ جرمانہ ہسپتال کے مالک کو۔ اب بجلی بار بار جائے اور جنریٹر بار بار جب چلے گا تو یقیناً یہ حساس قسم کے ا ٓلات اور مشینریاں ضرور خراب ہوںگی۔ اس میں آپریشن کرنے والے کا یا ہسپتال کے مالک یا ایم ایس ،پرنسپل اور وائس چانسلر کا کیا قصور؟اگر ہیلتھ کیئر کمیشن کی سارے دفعات پر عمل شروع ہوجائے تو پھر اس ملک سے سارے قابل ڈاکٹرز باہر چلے جائیں گے، پھر یہاں پر نالائق ڈاکٹروں کی فوج ظفر موج رہ جائے گی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم پروفیسر فیصل مسعود جیسے انتہائی قابل ڈاکٹر کے تجربات اور علم سے فائدہ اٹھائیں اور ان کی سرکردگی میں قابل نوجوان ڈاکٹروں کی کھیپ تیار کریں کیونکہ مجھے اور میرے جیسے لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کو اس ملک میں رہنا ہے۔ یہیں علاج کرانا ہے۔ حکمرانوں اور بڑے سیاستدانوں نے صرف حب الوطنی کی باتیں کرنی ہیں اور علاج کرانے وہ ہمیشہ یوکے، یو ایس اے، فرانس اور جرمنی جائیں گے۔ یہ کیسا کمیشن ہے جس میں پرائیویٹ اسپتالوں کی نمائندگی ہے نہ رائے لی گئی ہے۔
تازہ ترین