• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میاں شہباز شریف کی حکومت کا پہلا این آر او، بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاسپورٹ جاری کرکےدیا گیا۔ اس پاسپورٹ کی مدت دس سال ہے اور یہ ترجیحی بنیاد پر عام کیٹیگری میں جاری کیا گیا ہے، نواز شریف کو ڈپلو میٹک پاسپورٹ جاری نہیں کیا گیا، حکومت کی تبدیلی کے بعد پاسپورٹ کی تجدید کی ہدایت جاری کی گئی تھی۔ذرائع کے مطابق نواز شریف اب کسی بھی وقت پاکستان کیلئے روانہ ہوسکتے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے پاسپورٹ کی تجدید کی ہدایت جاری کی تھی۔وزیراعظم شہبازشریف نے بڑے بھائی میاں نوازشریف کو سفارتی پاسپورٹ اور اسحاق ڈار کو عام پاسپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔ لندن میں پاکستانی مشن کو دونوں پاسپورٹ جاری کرنے کے احکامات دیے گئے تھے۔وزیراعظم نے اسحاق ڈار کو بھی سفارتی پاسپورٹ جاری کرنےکا حکم دیا تھا تاہم سفارتی عملے نے واضح کیا تھا کہ اسحاق ڈار کو سفارتی پاسپورٹ جاری نہیں کیا جا سکتا۔سفارتی عملے کی بریفنگ کے بعد وزیراعظم نے اسحاق ڈار کو عام پاسپورٹ جاری کرنےکا حکم دیا۔

دوسرا این آر او یہ دیا گیا ہے کہ ای سی ایل سے نامور ’شخصیات ‘ کے نام نکال کر انہیں ’آزاد‘ کردیا گیا ہے وہ اب جہاں چاہیں جاسکتے ہیں انہی اصحاب پر مشتمل لائو لشکرشہبازشریف کے ساتھ سعودی عرب پہنچے گا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب میں شریف خاندان کے16 افراد بھی ساتھ ہوں گے۔ اس حوالے سے دفترخارجہ نے سعودیہ میں پاکستانی سفارتخانےکو تیاریوں کی ہدایت کر دی ہے۔ دفترخارجہ نے شریف خاندان کے لوگوں کی فہرست سفارتخا نے کوبھیج دی ہے۔ اسلام آبادسے حمزہ شہباز، اہلیہ، بیٹی اور خادمہ بھی ساتھ سعودی عرب جائیں گے اُن کےساتھ مریم نواز، صفدر، صبیحہ عباس، یوسف عباس، اہلیہ، بیٹا بھی ساتھ جائیں گے۔ شہبازشریف کے بیٹے سلیمان شہباز، اہلیہ، بیٹا اور ملازمہ دوحہ سے جدہ پہنچیں گے۔ نوازشریف کے بیٹے حسین نوازاوراہلیہ بھی لندن سے جدہ پہنچیں گے۔ وزیراعظم پارٹی سربراہوں سمیت اتحادی ممبران کو بھی لے کرجائیں گے۔ مولانا فضل الرحمان ان کے بیٹے اسعدمحمود، بلاول بھٹو، شگفتہ جمانی، اخترمینگل، خالد مگسی، خالدمقبول، امیرہوتی، شاہ زین بگٹی، اسلم بھوتانی، علی نواز شاہ، محسن داوڑ، محموداچکزئی، عبدالمالک بلوچ اور شاہ اویس نورانی بھی شہباز شریف کیساتھ جائیں گے۔عمران خان کے سابق معاون خصوصی طاہر اشرفی بھی شہبازشریف کیساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے جائیں گے۔ وزیراعظم کے پندرہ اسٹاف ممبران کے علاوہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے احدچیمہ اوراہلیہ بھی ساتھ جائیں گے۔ شہبازشریف کے اسٹاف ممبران میں دوڈرائیور بھی ہمرکاب ہوں گے مزید بارہ افراد کو اسٹینڈبائی لسٹ میں رکھا گیاہے البتہ صحافیوں کو ڈراپ کردیا گیا۔ ای سی ایل سے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، شاہد خاقان عباسی، وزیر ریلوے سعد رفق اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے نام بھی نکال دیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت کئی اہم شخصیات کے نام نکال دیے گئے ہیں۔ان افراد کے نام نیب اور ایف آئی اے کی سفارش پر ای سی ایل میں ڈالے گئے تھے تاہم عدالت اور سکیورٹی اداروں کی سفارش پر ڈالے گئے نام موجود رہیں گے، تین ہزار کے لگ بھگ افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے جانے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نیب مخالفین پر جھوٹے مقدمات کے لیے استعمال ہو رہی تھی، مخالفین کو جھوٹے مقدمات پر ای سی ایل میں ڈالا جاتا تھا، وزیر اعظم شہباز شریف نے ای سی ایل کے معاملے پر توجہ دی، نیب کے نوٹس پر ای سی ایل میں نام ڈالا جاتا تھا، ای سی ایل کے حوالے سے مسائل کو حل کیا جائے گا اب ای سی ایل میں نام تین ماہ سے زیادہ رہنے پر نام نکال دیا جائے گا۔ صرف اور صرف دہشت گردی میں ملوث افراد کے نام ای سی ایل سے نہیں نکلیں گے جبکہ محسن داوڑ کو ایک بار کیلئے اجازت نامہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا نام بھی ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے اسی طرح سابق وفاقی سیکرٹری شاہد رفیع، طاہر بشارت چیمہ کا نام بھی نکال دیا گیا ہے۔

دوسری طرف سابق وزیراعظم نے کارکنوں کے نام ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اسلام آباد آنے کی تیاری کرلیں چند ہفتے میں کال دوں گا۔ کہا گیا ہے کہ 20 لاکھ افراد اسلام آبادآئیں گے اور نئے عام انتخابات کے اعلان تک اسی شہر اقتدار میں پرامن دھرنا دیں گے۔ 20 لاکھ نہ سہی اگر دو تین لاکھ افراد بھی آگئے تو سوچیں کیا حال ہوجائے گا’ اسلام آباد دی بیوٹی فل‘ کا سب سے بڑا مسئلہ صفائی ستھرائی کا ہو گا، ایک تو اس حکومت کو اقتدار کے ایوانوں سے نکالنے کا اور دوسری حقیقی صفائی کا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ اب کمر کس لے نیا امتحان سر پر آگیا ہے، اتنے لوگوں کی فطری ضرورت سے بطریق احسن نمٹنا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اف توبہ، کیا حال ہوجائے گا۔ سوچنا ہوگا اداروں کو اور سب اسٹیک ہولڈرز کو بھی، ہزاروں نہیں لاکھوں پبلک ٹائلٹ کون بنائے گا ؟لگتا ہے کہ سی ڈی اے کو اب خندقیں ہی کھودنا پڑیں گی۔

تازہ ترین