• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وائے بدنصیبی، آئینی و سیاسی بحران تو انتہا کا گھمبیر ہو گیا ہے بس اللہ ہی کرم فرمائے تو بات بنے گی۔ مجموعی قومی سیاست اور بے سکت متعلقہ اور ذمے دار ریاستی اداروں نے تو خسارہ کمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کما لیا۔بچارے عوام جن کا بگڑے حالات پر بھی حیران کن صبر، برسوں سے صبر جمیل کی بجائے بے بسی و بے کسی اور ذہنی پسماندگی (یا غلامی ) کا عکاس زیادہ معلوم دے رہا تھا۔ لیکن بڑے بڑے سیاسی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی یہ اجتماعی رائے بھی فقط (رائے سازوں) زاویہ نگاہ (PERCEPTION) ہی ثابت ہوا ثبوت خود عوام نے نیب زدہ قماش کی ’’آئینی حکومت ‘‘ کی تشکیل کے بنتے ہی ملک گیر مظاہروں میں اپنے باوقار اور موثر ترین سیتھار سز سے دیا جو جاری و ساری اور نتیجہ خیز معلوم دے رہا ہے۔ اب اسے نظرانداز کرکے کوئی دوسرا نتیجہ نکالنے کی مہم جوئی مزید اور بہت خطرناک بگاڑ پیدا کرے گی۔ یہ تو اب بحث طلب رہا ہی نہیں کہ لالچ پارٹی لائن سے انحراف، برے وقت میں اچھی شہرت کے قائدسے بے وفائی اور (چلو) ’’سازش ‘‘ نہ سہی ’’مداخلت‘‘ کے امتزاج سے مدت پوری کرتی حکومت کی اکھاڑ اور نیب زدہ قماش کی حکومت کے قیام کو عوام الناس ایٹ لارج ہضم نہیں کر رہے وہ اپنے داد کے اظہار کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہی۔

گزشتہ روز 27ویں کی مقدس شب شروع ہونے پر بیت اللہ کے بعد دوسرے مقدس ترین مقام مسجد نبوی ؐ میں اس حوالے سے پاکستانی حکومتی وفد کی موجودگی پر پاکستانی زائرین نے جو سیاسی نعرے بازی کی وہ قابل مذمت ہے اس کی قطعی کوئی گنجائش شعائر اسلامی کے مطابق نہ تھی لیکن یہ بھی تو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں جو کچھ دوران رمضان ہوگیا اس پر عوامی غضب کتنا اور کہاں تک سرایت کر گیا ہے؟ یہ بھی بحث طلب نہیں کہ وہ یہ مکمل قدرتی عوامی ردعمل، عوامی جذبات و احساسات کے مطابق (جو قومی سوچ کا عکاس ہے ) بحران کے حل کو اختیار کرنے تک برقرار ہی نہیں بڑھتا رہے گا‘‘ سوشل میڈیا پر ورلڈ ریکارڈبنانے والا ہیش ٹیگ ’’امپورٹڈ حکومت نا منظور‘‘ چیخ چیخ کر نہیں بتا رہا کہ آئین کی پتلی (اور اب متنازعہ بھی )گلی سے جو ’’آئینی حکومت‘‘ نکالی گئی ہے، اس عمل نے پہلے سے بحرانی ملک و قوم کو کہاں لا دھکیلا ہے۔ کامیاب اور تیز ترقی کرتی اقوام کی جدید تاریخ سبق دیتی ہے کہ اقتصادی و سیاسی بحران قومی عقل و دانش کی ’’برین سٹارمنگ‘‘ سے بحرانی کیفیت کو ریورس کرکے ترقی و تعمیر کی طرف چل پڑیں اور خطوں اور دنیا میں مثال بن گئیں۔

پاکستان میں اقتصادی بحران کےساتھ ساتھ سیاسی عدم ا ستحکام کے گزشتہ 14سال میں جو کچھ ہو گیا اس کے نتیجے میں ہم آج اپنی 75سالہ تاریخ کے بدترین اقتصادی اور آئینی و سیاسی بحران سے دوچار ہیں۔ ایسا نہیں ہوا کہ ہمیں اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے کی کوئی راہ نہ سوجھی، ہر دور میں حکومت و اپوزیشن ’’آئین و پارلیمان کی بالادستی‘‘ کو جملہ مسائل کا حل اور جاری بحرانی کیفیت سے نکلنے کا واحد حل قرار دیتی رہیں۔یوں حکومت حزب اختلاف ایک ہی پیج پر رہتی ہیں لیکن بگاڑ، بدنیتی اور نااہلیت کے باعث برقرار ہی نہیں رہتا بڑھتا ہی جاتا ہے اور بار بار بحران در بحران کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ دونوں (بدنیتی اور نااہلیت) کا گہرا تعلق غیر جمہوری مزاج اور اسی پر مبنی خود غرضانہ اجتماعی رویے سے ہے جو ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا بن چکا ہے، وہ بیماررویہ جو آئین کی بمطابق و مطلوب اس منافقانہ اتفاق کے درمیان ہماری ترقی اور حقیقی اسلامی جمہوری عمل (آئینی تقاضے) کی راہ میں چٹان کی طرح حائل ہے۔عملی شکل یوں بنتی ہے کہ سیاسی جماعتیں کمزور و نحیف ان کے قائد اور رہنما بلا کے ’’طاقت ور‘‘ اور دولتمند خاندان ہیں جن کی ا ٹھتی جوانیاں بڑے بڑے تجربے کار اور میرٹ کے حامل پارٹی کارکنوں اور دوسرے تیسرے درجے کے رہنمائوں کے جمود اور تابعداری پر مکمل حاوی ہیں اور شدت سے غیر مطلوب قیادت میں ڈھل رہی ہیں۔موجود متنازعہ حکومت اس کی و اضح مثال ہے اس کیفیت میں طویل تواتر نے موروثی اقتدار و سیاست جیسی اسلامی جمہوریہ سے متصادم سیاسی ڈھانچے کو جنم دے کر بت کی شکل دیدی ہے ہمارےتابعدار سیاسی کارکنوں ’’باشعور عوام‘‘ اور ذمے دار ریاستی اداروں سے یہ بت یہ نہیں کہ توڑے نہیں جا رہے بلکہ یہ گھاگ سیاسی کارکن اپنے اپنے مفادات پر مفاہمت کرتے انہیں آہنی بنا کر مسلط کرنے کے دائمی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

وہ اپنی توجہ شفاف اور منصفانہ انتخاب کے انعقاد پر مرکوز رکھیں، خود سیاسی جماعتیں اور قائدین بھی آئینی بحران سے جیسے بھی اور جتنا پلٹ رہے ہیں، اس میں صورتحال کے حقائق کو فیصلہ سازی میں نظرانداز نہ ہونے دیں۔ اپنی سیاسی ضرورتوں اور روایتی رویے کو تبدیل کرنا ہی ہو گا۔

موجودہ حکومت بالکل متنازعہ اقتدار کی طوالت اور اس سے فقط اپنے زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد حاصل کرنے اور عمران خان پی ڈی ایم کو دوسری بڑی ہی سہی حقیقت مان کر ہی فیصلے کریں اور اپنے جماعتی فیصلوں کی کپیسٹی کو بڑھائیں۔ سارا انحصار اپنے اعتماد، عوام کی بڑھتی حمایت اور اپنی مقبولیت پر ہی نہ کریں۔محسوس ہو رہا ہے کہ وہ جلد الیکشن کے مطالبے کے ساتھ انتخاب جیتنے کی صورت میں پہلے کی طرح شدت سے مطلوب اچھے امیدواروں کی تلاش اور بہتر گورننس کے لازموں کی فکر سے پھر آزاد ہیں یہ غلطی دہرانہ انکی سیاست کے لیے مکمل مہلک ہو گا۔میڈیا کا کردار جلد شفاف اور قابل قبول الیکشن کرانے اور اپنے پیشہ ورانہ اور قومی جمہوری تقاضے پورا کرنے کے لیے اہم ترین ہوگا جو ذمے داری، آزادی اور پیشہ ورانہ اپروچ اختیار کرنے کا متقاضی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین