• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان کا قصور کیا ہے؟ لاہور کی ایک معصوم بچی کا جو درندوں کا نشانہ بنی اور ایسی کئی بچیوں کا؟اور میلسی کی نہر میں کود جانے والی پانچ بہنوں کا؟ اور پورے ملک میں ایسی کئی بہنوں کا؟سیکڑوں ہزاروں۔ان سب کا قصور کیا ہے؟ ظالموں نے جس پر ظلم توڑا وہ ایک ننھی سی جان ہے۔ اسے کچھ پتہ بھی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس کی عمرایسی نہیں کہ اسے پتہ ہو۔ ان درندوں کے ہاتھوں بہت سی ننھی پریاں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھی ہیں جو بچ گئیں ان کے لئے زندگی بھر کے عذاب ہیں۔ ایسے عذاب کہ انہیں ابھی جن کا کوئی اندازہ بھی نہیں۔ لاہور میں اب تک وہ ظالم پکڑے نہیں جا سکے۔ یہی آپ کی کارکردگی ہے؟
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان بدکاروں کو پکڑ کے اب تک کیفرِکردار تک پہنچا بھی دیا گیا ہوتا۔ ایسا ہوا نہیں، اس بار بھی اور جب بھی اس طرح کی واردات ہوئی۔ قانون کا خوف قانون پر عمل میں ہوتا ہے اور عوام کو تحفظ فراہم نہ کرنے کا گناہ حکمرانوں پر۔ اس معصوم کی قربانی سے کوئی سبق ہی حاصل کر لیا جائے۔ آگہی فراہم کی جائے، اس طرح کے حادثات سے بچاؤ کی۔ اور یہ کہنے کی تو کوئی ضرورت نہیں کہ مجرموں کو جلد پکڑ کر انہیں عبرتناک سزا دی جائے، قوم منتظر ہے۔ میلسی کی نہر میں کود جانے والی پانچ بہنیں ایک دوسرے عذاب کا شکار تھیں۔ یہ عذاب بھی ختم نہیں ہو رہا۔ جہیز کا عذاب، سسرال والوں کے مطالبات بھی تھے اور غربت بھی۔ پاکستان میں جہیز کی وجہ سے جان دینے والی بچیوں کی تعداد، افسوس صد افسوس، دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ میلسی کی نہر میں کود جانے والی بہنیں بھی اسی عذاب کا شکار تھیں۔ عمر بیتی جا رہی تھی، سر میں چاندی اترنے لگی تھی، استعارہ چھوڑیں، بال سفید ہونے لگے تھے۔ ایک کی عمر پینتالیس برس ہو چکی تھی۔ سب سے چھوٹی بھی بیس سال کی ہے۔ رشتے آتے ہوںگے ، مطالبات بھی ساتھ ساتھ۔ ماں باپ ان کے غم میں گھلتے بھی ہوں گے اور کڑھتے بھی کہ بیٹیوں کو رخصت نہیں کر پارہے۔ ان کے پاس وسائل ہی نہیں ہیں۔ بیٹیوں کو بھی پتہ تھا، وہ ماں باپ پر ایسا بوجھ ہیں جو وہ اتار نہیں پا رہے۔ آئے دن کے طعنے ، دنیا والے کب کسی کو جینے دیتے ہیں۔ ایک کرب کا وہ شکار رہی ہوں گی ۔ برسوں انہوں نے دکھ سہے ، صبر کیا۔ مگر کب تک؟ صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اب ان سے زیادہ برداشت نہیں ہوپایا ہوگا۔ کوئی یونہی تو اپنی جان نہیں لیتا۔ یہی ایک حل انہیں سوجھا، یہی ایک طمانچہ معاشرہ کے منہ پر وہ مار سکتی تھیں۔ پانچوں بہنیں ایک ساتھ نہر میں کود گئیں۔ ایک بچ گئی۔ گھر والوں کے سوا کس آنکھ سے آنسو ٹپکا ہوگا؟ کسی نے شاید ہی توجہ دی ہو۔ یہ ان غریبوں کا دکھ ہے، وہی سہیںگے۔ باپ جہیز مانگنے والوں کو خوش نہ کر سکا، پیار محبت سے پالی بچیوں کو کفن بھی نہ جانے کس طرح میسر آیا ہو گا۔
یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی اپنے حقوق سے محروم رہتی ہے، رکھی جاتی ہے، محض اس لئے کہ وہ لڑکیاں ہیں۔ اس میں ان کا کیا قصور؟ ان کے اپنے ہاتھ میں کیا تھا؟ پیدائش سے پہلے نہ پیدائش کے بعد۔اگر وہ لڑکیاں ہیں تو کیا اس میں ان کی رضا شامل تھی؟کس گھر میں وہ پیدا ہوئیں کیا انہیں پتہ تھا؟اس گھر میں کھانے کو کتنے دانے ہیں، سر ڈھانپنے کو کتنے کپڑے ؟اور جب وقت آئے تو ساتھ لے جانے کو کتنے جوڑے؟ انہیں کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا،ان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہوتا ۔ان کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں۔عذاب مگر انہیں ہی سہنے پڑتے ہیں اور ان عذابوں سے نجات کی کوئی راہ نہیں، نظر نہیں آتی۔ عذاب ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ننھی سی جان جس نے ابھی ابھی دنیا میں آنکھ کھولی ہے،ناپسندیدہ ہوتی ہے ،بہت سوں کیلئے، اکثر اپنی ماں کیلئے بھی جو کئی لڑکیوں کو پہلے ہی جنم دے چکی ہے۔ وہ بھی اسے ناپسند کرتی ہے جو خود اس کی ہم جنس ہے۔اُس کا بھی کوئی قصور نہیں۔ اُس نے دنیا دیکھی ہے، دنیا والوں کا برتائو دیکھا ہے۔وہ ان تمام مراحل سے گزری ہے، جس سے اب اس ننھی سی جان کو گزرنا ہے۔ اس کی دادی بھی اس کی پیدائش پر خوش نہیں۔ ماں نے چھ بیٹیوں کو پہلے جنم دیا تھا۔اب بیٹے کی آرزو تھی پھر بیٹی پیدا ہو گئی۔ یہ بیچاریاں پیدائش کے وقت سے ہی ایک خاص منفی رویّے کا شکار ہوتی ہیں بلکہ پیدائش سے پہلے بھی، کہ ممکن ہو تو وہ پیدا ہی نہ ہوں۔ ہو جائیں تو گھر میںبھی دوسرے درجے کی اولاد سمجھی اور برتی جاتی ہیں۔ بہت سے گھر ہیں جہاں لڑکیوں کا کھانا لڑکوں سے مختلف ہوتا ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش پر خوش ہوں، کم ہی ایسے گھر ہوں گے۔ ان بیچاریوں کو ایک طرف ڈال کر بیٹے پیدا کرنے کی خواہش کی جاتی ہے۔ نہ ہو تو بیٹی کوپھر ایک طرف ڈال دیا جاتا ہے۔ یوں ان کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ اتفاق سے بیٹا پیدا ہوجائے تو ساری توجہ اس پر ۔ بیٹیوں پر تو پہلے ہی کونسی تھی ، اب اور کم ہوگئی۔کوئی نہیں سوچتا، کسی کو خیال نہیں آتا، اس کا کیا قصور ہے۔ وہ پیدا ہی نہیں ہوتی،اگر اس کے بس میں ہوتا۔ اس کی اپنی زندگی پر اس کا کوئی بس نہیں۔ پیدا ہوتے ہی بوجھ سمجھی جاتی ہے۔ بیٹیاں ماں باپ کیلئے بوجھ ہوتی ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے جتنی جلدی ہو اس بوجھ سے نجات حاصل کر لی جائے۔ ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے۔ بوجھ تو بوجھ ہے، اسے تو سر سے اتار پھینکنا ہے۔ انجانے لوگوں کو بھی کبھی کبھی اپنے جگر کا ٹکڑا پکڑا دیتے ہیں پھر ان پر وہاں جو بیتتی ہے، ماں باپ کو کم ہی اندازہ ہوتا ہے۔ بہت سی بیٹیاں سارے ظلم سہتی ہیں۔ زبان بند رکھتی ہیں۔ انہوں نے سن رکھا تھا، میکے سے ڈولی نکلتی ہے، سسرال سے ڈولا۔یہ تو ان ’’خوش قسمت‘‘ بچیوں کی بات ہے جنہیں رشتے نصیب ہو گئے۔ جن کے ماں باپ ان کے ہاتھ پیلے کرنے کے قابل تھے اور سسرال والوں کی خواہشات پوری کرنے کے۔ جہیز، جہیز۔ اس کے نام پر کتنی زینتیں، فیاض بی بیاں، منیرائیںاور نازیائیں بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ میلسی ایک جگہ نہیں، بہت جگہ ہے ، ہر جگہ ہے۔ شہروں میں ذرا کم، دیہی علاقوں میں بہت زیادہ ۔ بیٹھے بیٹھے ، انتظار کرتے کرتے وہ شادی کی عمر سے آگے نکل جاتی ہیں، اگر ماں باپ مانگنے والے کی خواہشیں پوری نہ کر سکیں۔ ایک قانون بنا تھا، جہیز پر پابندی کا۔ کبھی کاغذسے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس سے پہلے جہیز کی نمائش کی جاتی تھی۔ سب آکر دیکھتے تھے۔ قانون بننے کے بعد دوسرا راستہ نکال لیا۔ اب نمائش نہیںہوتی۔ جہیز کا سامان لوٹ کے مال کی طرح ٹرک میں لاد کر لے جاتے ہیں، کوئی پوچھتا نہیں، کوئی باز پرس نہیں۔ بیٹوں کی شادی میں جہیز لینے سے انکار کیا جا سکتا ہے، کچھ کرتے بھی ہیں۔ بیٹی کی شادی میں جہیز دینا ہی پڑتا ہے، کچھ ہی انکار کرتے ہیں۔ ان سب رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ کام نا ممکن نہیں، مشکل ضرور ہے۔ اس کیلئے معاشرتی اصلاح کی ضرورت ہے، تعلیم کی بھی۔ بہت کام کرنا ہوگا۔ جہاں تعلیم کچھ نہ کچھ پہنچ گئی ہے وہاں بات سمجھ میں بھی آتی جا رہی ہے۔ جہاں تعلیم کو ابھی تک لوگوں سے دور رکھا گیا ہے وہاں کام ذرا کٹھن ہے۔ ذات برادری کے مسائل ہیں، عزت کا سوال ہے،ناک کا مسئلہ ہے۔ وہاں بہت کام ہونا ہے، مسلسل۔ عورتوں کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں یہ بیڑا اٹھائیں ورنہ کوئی دوسرا۔ بہت سے ہاتھ مل کر ان بیڑیوں کو توڑ سکتے ہیں۔ میلسی ہو یا کراچی اور دلی ہو یا جے پور ان بیڑیوں کو اب ٹوٹ جانا چاہئے۔ ان بچیوں کی، ان مہیلاؤں کی زندگی بچانے کیلئے، انہیں زندہ رکھنے کے لئے۔
تازہ ترین