• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے تو آپ کو عید الفطر کی پیشگی دلی مبارکباد۔آج اتوار ہے، یکم مئی بھی ہے، مزدوروں کا دن۔ ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات۔ افطاری پر پھر آپ کو ہم کو اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ ان کے سوالات سننے ہیں۔ عید کی تیاریوں کی باتیں ہونی ہیں۔ پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے لیے نئے کپڑے نئے جوتے آپ لے چکے ہوں گے۔ آپ نے ان کے ساتھ ساتھ اپنے غریب اور مشکل حالات سے دوچار رشتے داروں، پڑوسیوں کا بھی خیال رکھا ہوگا۔ ان اداروں کو زکوٰۃ کا عطیہ بھی دیا ہوگا جو ملک میں تعلیم، صحت کے لیے دن رات کوششیں کررہے ہیں۔ مستحقین کو اعلیٰ علاج کی سہولیات بلا معاوضہ فراہم کررہے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ پاکستانی قوم مستحقین، فلاحی اداروں، سماجی تنظیموں کو سب سے زیادہ عطیات دیتی ہے۔ ہماری ریاست اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر پارہی، ریاست کے فرائض بےلوث شخصیات کی سربراہی میں بہت سے اسپتالوں، اسکولوں نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ عبدالستار ایدھی، بلقیس ایدھی اپنے فرائض ادا کرکے خالق حقیقی کے پاس چلے گئے ہیں۔ فیصل ایدھی، رمضان چھیپا، ڈاکٹر عبدالباری، انڈس اسپتال، الخدمت، سٹیزن فائونڈیشن اور اخوت اپنی خدمات میں مصروف ہیں۔

دل بہت بوجھل ہے کہ رمضان کی ستائیسویں شب مسجد نبویؐ میں جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ اسی قوم کے کچھ افراد کے تھے جو اپنی ترکیب میں خاص ہے۔ یہ کون بد بخت تھے جو دنیا کے سب سے مقدس، محترم مقام پر اپنی عبادات کے بجائے اس ہنگامے اور ہلڑ بازی کو ترجیح دے رہے تھے؟ آپ کو اپنے حکمران لاکھ نا پسند ہوں، ان پر کتنے ہی مقدمات چل رہے ہوں، یہ آپ کے ملک کا اندرونی مسئلہ ہے۔ روضہ رسولؐ کی قربت میں مسجد نبوی میں اس حوالے سے ایک آواز بھی بلند کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا اپنا رویہ ہو یا کسی کے کہنے پر کررہے ہوں، یا بےساختہ ہو، ایک مسلمان، ایک سچا عاشق رسولؐ، ایک امتی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی التجا ہی کرنی چاہیے۔ اسے اب مزید تنازعات کی بنیاد نہ بنائیں۔

میں نے تو بار بار لکھا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام انتقام کی آگ کا ایک کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوگا۔ نیب اور ایف آئی اے والے اپنی تلواریں سونت کر نکلیں گے۔ وہی ہورہا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انتخابات ایسے سیاسی ہنگاموں، شورشوں کا واحد علاج ہوتے ہیں لیکن جیسے الیکشن کمیشن ہیں، عدالتیں ہیں، الیکشن میں جیسے امیدوار کھڑے ہوتے ہیں، صادق اور امین تو انتخابی اخراجات برداشت بھی نہیں کر سکتے۔ انتخابیوں کی نسلیں، ان کے شہزادے شہزادیاں بھی میدان میں اترتے ہیں اور ہم پاکستانی ان کی بلائیں لیتے ہیں۔

بہت مایوسی ہے۔ اب کے تو رمضان کا مبارک مہینہ، مقدس راتیں بھی سیاسی ہائو ہو میں گزری ہیں۔ اقتدار کی ہوس عبادات، تقویٰ، خشوع و خضوع پر غالب تھی۔ انہی پر تقدیس دنوں میں حکمران بدلے گئے۔ پارلیمنٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں میں پُر تشدد کارروائیاں دیکھیں۔ اسمبلیاں قبائلی لڑائیوں کے نقشے پیش کرتی رہیں۔ اسی رمضان کے مقدس مہینے میں ایک خاتون نے اپنی زندگی کو ہتھیار بنا لیا اور پاکستان کے سب سے مخلص، بےلوث دوست چین کے اساتذہ کو نشانہ بنایا۔ پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈالنے والے سی پیک کو روکنے کے لیے ایک کالعدم تنظیم نے بم دھماکہ کیا۔ پھر درد مند پاکستانی تشویش میں ڈوب گئے کہ 75سال میں بھی ہم اپنے سب سے زیادہ رقبے والے صوبے، معدنی اور قدرتی وسائل سے معمور بلوچستان کے رہنے والوں اور خاص کر نوجوانوں کی تمنّائوں اور امنگوں کو نہ جان سکے۔ قائداعظم نے ہمیشہ بلوچستان کو خصوصی اہمیت دی تھی۔ بلوچستان اپنے محل وقوع، اپنے معدنی اثاثوں کی بدولت پاکستان کا سب سے اہم صوبہ ہے۔ آپ جس ایٹمی طاقت ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں، ایٹمی طاقت بنانے والا چاغی بھی بلوچستان میں ہے، ریکوڈک بھی بلوچستان میں ہے۔ بلوچستان کے نوجوان ہمارا روشن مستقبل ہیں، ہمیں بلوچستان کی سب سے زیادہ قدر کرنی چاہیے۔ اب آئندہ صدیوں کے لیے آپ کو اقتصادی ترقی دینے والی بندرگاہ گوادر بھی بلوچستان میں ہی ہے۔ اگر ہم پاکستان کے مستقبل میں بلوچستان کی اہمیت کا احساس کر سکیں تو ہمیں بلوچستان میں پاکستان کا دوسرا دارُالحکومت بنا لینا چاہیے۔ بلوچستان کے رہنے والے صدیوں سے اپنا ایک تشخص، ایک وقار رکھتے ہیں۔ اپنے ماضی اور روایات پر انہیں فخر ہے۔ ان کے جذبات، ان کے محسوسات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار انہیں اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے دیں۔ بلوچستان کی اقتصادی دولت کا ادراک دوسرے ملکوں کو ہے۔ اس لیے وہ اس میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں امن ہو۔

ہم بلوچستان کو صرف سیکورٹی کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کا نہیں۔ جذبے، فخر اور غیرت کا نہیں۔ بلوچ تاریخ سے آشنائی حاصل نہیں کر پاتے۔ سوچنا چاہیے کہ بلوچستان میں ایک اسمبلی موجود ہے۔ 1970سے انتخابات ہورہے ہیں۔ یہ انتخابات بےنتیجہ کیوں رہتے ہیں۔ یہ انتخابات بلوچستان کے مسائل کیوں حل نہیں کرپاتے۔ صوبائی حکومتیں بنتی ہیں۔ اب بھی ایک حکومت قائم ہے، کابینہ ہے۔ وفاقی حکومت میں بھی بلوچستان کے نمائندے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین بلوچستان سے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر وہاں سے تھے۔ یہ لوگ کس بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں؟ فنڈز کہاں جاتے ہیں۔ کیا ان بلوچ لیڈروں کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظیمیں کیوں وجود میں آتی ہیں؟ مجید بریگیڈ کیوں قائم کیے جاتے ہیں؟ ایک ماں بچوں کو گھر چھوڑ کر کس مقصد کے لیے بارود کا بٹن دباکر اپنے پرخچے اڑارہی ہے؟

بلوچستان سے آوازیں آرہی ہیں۔ اگر چہ بہت دیر ہو چکی لیکن اب بھی وقت ہے۔ ان نوجوانوں کی سنیں۔ بلوچستان ہمارا مستقبل ہے۔ کچھ طاقتیں ہم سے ہمارا مستقبل چھیننا چاہتی ہیں۔ وزیراعظم، آرمی چیف کوئٹہ میں جاکر بیٹھ جائیں۔ بلوچستان کے دل کی دھڑکنیں سنیں۔ سب کے دل ایک ساتھ دھڑکنے چاہئیں۔ وزیراعظم کو ہر مہینے ایک دو دن بلوچستان کے لیے وقف کرنے چاہئیں۔ بلوچستان ہماری معیشت کا مستقبل ہے۔ ہماری خود کفالت کا مرکز ہے۔

تازہ ترین