• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف کی سربراہی میں بننے والی نئی مخلوط حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کر لیا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ قراردی جا رہی ہے کہ اس وقت ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہیں جس کی وجہ سے نئی حکومت کو بیرونی ادائیگیوں کے حوالے سے دبائو کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے مہنگائی مزید بڑھنے اور گزشتہ حکومت کی طرف سے پیٹرول وڈیزل پر دی گئی سبسڈی واپس لینے کے بیانات سامنے آنے کے بعد ملک میں پہلے ہی ڈیزل کی مصنوعی قلت کا بحران سامنے آ چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ طور پر عوام کو کڑے معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور معاشی استحکام کے نام پر شرحِ سود اور ٹیکسوں میں مزید اضافہ کرنے کے علاوہ مختلف شعبوں میں دی جانے والی سبسڈیز کو ختم کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے عوام کو دیے جانے والے ریلیف پیکیج کے تحت بجلی کے نرخوں میں پانچ روپے فی یونٹ کمی اور پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں بالترتیب دس اور پانچ روپے کی کمی کر کے ان قیمتوں کو آئندہ بجٹ تک منجمد کر دیا تھا۔آئی ایم ایف کی موجودہ شرائط میں اس ریلیف پیکیج کا خاتمہ بھی شامل ہے۔اس اقدام سے عام آدمی اورتنخواہ دار طبقہ یقینی طور پر متاثر ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف شرائط کے تحت جب تیل کی مصنوعات پر سبسڈی ختم کی جائے اور بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں تو اس سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ علاوہ ازیں دنیا میں جاری غیر معمولی حالات کی وجہ سے آنے والے دنوں میں تیل، گیس اور خوردنی تیل کی قیمتیں مزید بڑھنے کا امکان ہے جس کا بوجھ بھی عام آدمی کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی قریب میں جب تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے پیکیج لیا تھا تو موجودہ حکومت نے بطور اپوزیشن اس پر شدید تنقید کرتےہوئے اسے آئی ایم ایف کی غلامی میں جانے کے مترادف قرار دیا تھا۔ تاہم اب حکومت میں آنے کے بعد انہیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اس وقت اختیار کی جانے والی پالیسی ناگزیر تھی۔ اس حوالے سے میری پہلے بھی یہی رائے رہی کہ معاشی معاملات پر سیاست کرنے کی بجائے قومی اتفاق رائے کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے عوام کو غیر جانبداری سے اس اقدام کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے آگاہ کیا جائے۔ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے زیادہ برآمدات کرنے کا ریکارڈ قائم کر چکا ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانیوالی ترسیلاتِ زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود عالمی مالیاتی اداروں میں اپنی ساکھ قائم رکھنے اور مالیاتی خسارہ کم کرنے کےلیے (آئی ایم ایف) کا پروگرام جاری رکھنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 22 نومبر کو پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا جس پر مزید عمل درآمد گزشتہ چند ماہ کے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معطل ہو گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے ان تمام پالیسیوں اور اصلاحات کی تکمیل ضروری ہے جو چھ ارب ڈالرز کے 'ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی (ای ایف ایف) کے لیے درکار ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ارب ڈالر کا فنڈ حاصل کرنے کے لیے باہمی اتفاق سے طے کئے گئے پانچ نکات پر عمل درآمد ضروری ہے۔

یہاں یہ بات پیشِ نظر ہے کہ گزشتہ حکومت نے منی بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف پہنچانے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پہلے ہی اپنی پوری کوشش کی تھی کہ ایسی اشیاء پر ٹیکس نہ لگایا جائے جو کم آمدنی والا طبقہ استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ منی بجٹ کےباوجود کھانے پینے کی بنیادی اشیاء آٹا، چینی، چاول اور دالیں مہنگی نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اشیاء سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافے اور اس پر ختم ہونے والی چھوٹ میں شامل نہیں تھیں جبکہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی دالیں پہلے سے سیلز ٹیکس کے نیٹ میں ہیں۔ علاوہ ازیں مزید ایسی اشیاء پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کا فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا تھا جن میں بیکری آئٹمز اور دیگر عام استعمال کی چیزیں شامل ہیں۔ تاہم یہاں اس بات کا ذکر کرنا بیجا نہ ہو گا کہ خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے اور اس کی شرح 17 فیصد کرنے سے معیشت اور پیداواری عمل پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خام مال کے مہنگا ہونے سے پیداواری عمل سست روی کا شکار ہے۔ ایسے میں اگر حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر دی گئی سبسڈی ختم کی تو اس سے معاشی سرگرمیوں کو مزید دھچکا لگے گا۔ اس سبسڈی کو اگرختم کرنا ناگزیر ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی ایسا میکانزم بنانا ضروری ہے کہ موٹرسائیکل سوار وں کے اخراجات یا پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ نہ ہو۔ حکومت کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ خام مال مہنگا ہونے سے جب مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو اس سے اسمگلنگ میں اضافہ ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ اس حوالے سے پیٹرولیم مصنوعات اور خوردنی تیل کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جیسے جیسے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح اسمگل شدہ پیٹرول اور خودرنی تیل کی مانگ اور سپلائی میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت کی طرف سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم واپس لینے پر تو شاید کوئی اعتراض نہ کرے لیکن پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر دی گئی سبسڈی کو یکدم ختم کرنے کی بجائے مرحلہ وار کم کیا جائے یا اس کے لیے دوست ممالک کی مدد حاصل کی جائے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنا پاکستان میں مالیاتی ڈسپلن کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین