• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے پر بڑے جلسے منعقد کر کے طاقتوروں کو مرعوب کرنے کی کوشش کی کہ اگر اُن کی حکومت گرائی گئی تو عوام کی جانب سے شدید مزاحمت کی جائے گی۔ انہوں نے تحریکِ عدم اعتماد کیلئے ووٹ ڈالنے کیلئے آنے والوں کو اپنی ’’اسٹریٹ پاور‘‘ سے بھی خوف زدہ کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ 10اور 11اپریل 2022کی رات تحریکِ عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسے منعقد کر کے گھر بھجوانے والی قوتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اُن کے ’’امریکہ مخالف بیانیے‘‘ کو عوام میں بےپناہ پذیرائی حاصل ہو گی، سو اسی ’’خوش فہمی‘‘ نے انہیں مینارِ پاکستان کے سائے تلے جلسۂ عام میں عوام کو ’’اسلام آباد کی کال‘‘ دینے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے ابھی تک اسلام آباد کی کال کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تاہم قرائن بتاتے ہیں کہ وہ 14اگست2014کی طرح اب کی بار ’’آزادی مارچ‘‘ کے لیے عوام کو 14اگست 2022کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دیں گے۔ انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا ہے کہ ’’جن سے غلطی ہوئی ہے، اب ایک ہی حل ہے کہ الیکشن کروا دو‘‘۔ عمران خان ریڈ زون میں ’’دھرنا2‘‘ دینے کی تیاری کر رہے ہیں اور اسٹریٹ پاور کے ذریعے ہر قیمت پر نومبر 2022سے قبل عام انتخابات کرانا چاہتے ہیں۔ نومبر 2022کو پاکستان میں اس لیے غیرمعمولی اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ یہ مہینہ پاکستان میں عسکری قیادت میں ’’تقرریوں اور ترقیوں‘‘ کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ عمران خان، جنہیں اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں اپنے ’’با اختیار‘‘ ہونے کا ضرورت سے زیادہ ’’احساس‘‘ ہو گیا تھا، اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے من مانیاں کر رہے تھے لیکن دنوں میں اپوزیشن نے عمران حکومت گرا دی۔

عمران خان ہمیشہ ہجوم کیلئے کشش رکھنے والی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں لیکن جب ان کو اقتدار ملا تو وہ ناکام حکمران ثابت ہوئے، ان کے ’’یوٹرن‘‘ اور ’’بلنڈرز‘‘ ہماری سیاسی تاریخ میں عجوبے کے طور پر یاد کیرکھے جائیں گے۔ اب عمران خان اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ریڈ زون میں دھرنا2 دے کر حکومت کو مفلوج کر دیں گے، جو ان کی خام خیالی ہے۔ میں نے 2014کا 126روزہ دھرنا کور کیا ہے، طویل دھرنے میں کچھ دن ایسے بھی آئے جب عمران خان کو خالی کرسیوں سے خطاب کرنا پڑا۔ اس دھرنے نے نہ صرف کپتان کو تھکا دیا تھا بلکہ ان کے کارکن بھی دن کو اپنے ٹھکانوں پر چلے جاتے تھے لیکن رات کو ’’شغل میلہ‘‘ دیکھنے ریڈ زون آجاتے چونکہ عمران خان نواز شریف حکومت کو مفلوج کرنے کیلئے مطلوبہ کارکن اسلام آباد لانے میں ناکام رہے تو ان کو تحریکِ منہاج القرآن کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کی افرادی قوت فراہم کی گئی، افرادی قوت کیلئے خوراک کی سپلائی تعطل کا شکار ہونے کے بعد اچانک ایک روز ڈاکٹر طاہر القادری اپنا بوریا بستر باندھ کر لاہور واپس چلے گئے۔ اس دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا۔ حکومت چاہتی تو ایک گھنٹے کی کارروائی کر کے پی ٹی آئی کے گنتی کے کارکنوں کو منتشرکر دیتی لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نواز شریف کو عمران خان کو تھکا دینے کی حکمت عملی اختیار کرنے کا کارگر مشورہ دیا اور پھر وہ16دسمبر 2014 کے سانحہ اے پی ایس کا بہانہ بنا کر اپنا دھرنا ختم کر کے بنی گالہ واپس لوٹ گئے۔ اس دھرنےسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ عمران خان نے یکم نومبر 2016کو ’’اسلام آباد لاک ڈائون‘‘ کی نئی اختراع متعارف کرائی تو اس وقت نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کو ’’ فری ہینڈ‘‘ دے کر لاک ڈائون بھی ناکام بنا دیا۔ چوہدری نثار علی خان نے 2014کے دھرنے کو منتشر کرنے کیلئے ریاستی قوت استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ میں نے نواز شریف سے ریاستی قوت استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ وہ ایک اور سانحہ ماڈل ٹائون رونما نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ 2014کا دھرنا ’’اسپانسرڈ‘‘ تھا جسے نواز شریف کی برداشت کی حکمت عملی نے ناکام بنا دیا۔ عمران خان نے قبل از وقت عام انتخابات کرانے کیلئے ’’دو ملین‘‘ لوگ اسلام آباد لانے کی دھمکی دی ہے، وہ 15، 20ہزار سے زائد کا مجمع اسلام آباد لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عمران خان ’’عالمی سازش‘‘ کے نتیجے میں ان کی حکومت گرانے کا جو چورن سیاسی مارکیٹ میں فروخت کرنا چاہتے ہیں، اس سے ملک کی 70فیصد آبادی نا واقف ہے، اس کا مسئلہ روٹی، کپڑا اور مکان ہے، عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں اور 50لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا تھا، اسے پونے چار سال پورا نہ کر سکے، عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ’’بیانیہ‘‘ سیاسی مارکیٹ میں خوب بکے گا، پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، 13،14سال گزرنے کے بعد آج بھی دیہی علاقوں کی خواتین کے ذہنوں میں ’’بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ جسے پی ٹی آئی کی حکومت نے ’’احساس‘‘ کا نام دے دیا، تازہ ہے، آج بھی دیہی علاقوں کی خواتین یہ سمجھتی ہیں ان کو بےنظیر بھٹو امداد فراہم کر رہی ہیں، دیہی علاقوں کے لوگوں کیلئے عالمی سامراج کی سازش کوئی مسئلہ نہیں، ان کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے میں کشش ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت اپنے دور حکومت میں عوام کو دینے میں ناکام رہی ہے۔ پچھلے پونے چار سال کے دوران عمران خان نے سیاسی مخالفین کو ’’چور، چور اور ڈاکو، ڈاکو‘‘ کہہ کر ہی پکارا۔ پی ٹی آئی کی قیادت درست ہی کہتی ہے وفاقی کابینہ کے بیشتر اراکین ضمانت پر ہیں، سینیٹر چوہدری تنویر خان مسلم لیگ (ن) کا آخری لیڈر ہے جو عمران خان کی حکومت گرنے سے چند روز قبل اپنے صاحبزادے بیرسٹر دانیال چوہدری کی شادی میں شرکت کرنے آئے تو ان کو گرفتار کر لیا گیا، ان کے خلاف کیس کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسری تیسری پیشی پر ان کی ضمانت ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں وزیر خارجہ کا منصب سنبھال کر سیاسی حلقوں کو سرپرائز دیا ہے۔ آصف علی زرداری نے جہاں بلاول بھٹو زرداری کو لندن میں نواز شریف کے پاس بھجوا کر ’’میثاق جمہوریت2‘‘ پر دستخط کرنے پر آمادہ کر لیا ہے وہاں مستقبل قریب میں عمران خان کا مل کر مقابلہ کرنے پر اتفاق رائے بھی پیدا کر لیا ہے۔

تازہ ترین