• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں ایک ملک ہے نام ہے اس کا اسرائیل، رقبہ بائیس ہزارمربع کلومیٹر،آبادی اسّی لاکھ اور فوج تقریباً پونے دو لاکھ۔ سرکاری طور پرتو ہم اس ملک کو تسلیم نہیں کرتے یعنی ہمارے نزدیک اسرائیل نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے پر وجود نہیں رکھتا لیکن اپنے ہاں ہونے والی ہر اَن دیکھی سازش کا ذمہ دار البتہ ہم اسی ملک کو سمجھتے ہیں۔ 2000ء سے 2005ء تک اسرائیل بھی خود کش دھماکوں کا شکار رہا ،اس دوران یہاں 70کے لگ بھگ دھماکے ہوئے ( جو ہمارے سٹینڈرڈ سے کہیں کم ہیں) تاہم یہ دھماکے زیادہ تر تل ابیب کے نائٹ کلبوں ،بس سٹاپ ،ریستوران اوربازاروں میں ہوئے ۔جب یہ دھماکے ہورہے تھے تو ہمیں یہی بتایا جاتا تھا کہ فلسطینی مجاہدین اپنے حق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ،ان دنوں نیم چڑھے دانشور ہمیں سمجھاتے تھے کہ جب کسی بے کس پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے تو پھر ایسا شخص اپنی جان دے کر دوسروں کی جان لینے کو جائز سمجھتا ہے ۔ایسے میں اکثر وہ ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملتیں جن میں نوجوان فلسطینی لڑکے لڑکیاں سر پر کفن باندھ کر خود کش حملوںکے لئے نکلتے اور نہتے شہریوں پر پھٹنے کے بعد ’’شہادت‘‘ پاتے،البتہ ان دھماکوں میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کم ہی سننے کو ملتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے فلسطینی زمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا جو تاحال قائم ہے اوراپنے وطن کے حصول کے لئے فلسطینیوں کی جدو جہد جائز تھی اور ہے مگر خود کش دھماکوں کے ذریعے بے گناہ انسانوں کا قتل اسلام میں جائز تھااور نہ ہی اس سے عالمی رائے عامہ کی کوئی مدد حاصل ہوئی، لیکن اس وقت جب ہم ٹی وی پر اسرائیلی عوام کو نائٹ کلبوں ،ہوٹلوں اور بسوں میں مرتے دیکھتے تو دل میں یہی سوچتے کہ یہ اس ظلم کا ردعمل ہے جو اسرائیلی ریاست نے نہتے فلسطینیوں پر ڈھایا ہے ،ہم میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیںتھا کہ ایک دن ’’رد عمل ‘‘ کا یہ نام نہاد فلسفہ ہماری ریاست کی بنیادیں بھی ہلا کر رکھ دے گا۔گو کہ فلسطینیوں کی جدو جہد آزادی ایک ہزار فیصد حق پر مبنی ہے مگر فی الحال یہ میرا موضوع نہیں،میری دلچسپی کا باعث تو وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت اسرائیلی حکومت نے خود کش دھماکوں پر قابو پایا اور آج کئی سال ہونے کو آئے وہاں دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ سننے کو نہیں ملتا۔اسرائیل نے یہ سب کیسے کیا،یہ داستان حیران کن ہی نہیں ،چشم کشا بھی ہے ۔
اسرائیل میں خود کش حملوں کے خلاف کوئی ابہام نہیں پایا جاتا تھا،حکومت ،فوج ،عوام ،میڈیا اور سماج کے تمام طبقات نہ صرف ایک پیج پر تھے بلکہ ایک ایک نقطے پر متفق تھے ،کوئی نہیں کہتا تھا کہ یہ جنگ ہماری نہیں،کسی نے اسرائیل میں یہ نہیں کہا کہ یہ پاکستان کی سازش ہے ،وہاں خود کش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کو شہید کہا اور سمجھا بھی جاتا تھا،کوئی اسرائیلی دہشت گردوں کو ’’اپنے لوگ‘‘ نہیں کہتا تھا،ریاست نے دہشت گردوں کو ’’اچھے دہشت گرد‘‘ اور ’’برے دہشت گرد‘‘ کے خانوں میں بانٹ کر ’’اچھوں‘‘ کے سر پر دست شفقت نہیں رکھا تھا،ریاست کسی دہشت گرد کو نام نہاد ’’سٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ پالیسی کے لئے استعمال نہیں کرتی تھی ،کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ یہ اسرائیلی حکومت کی پالیسیوں کا رد عمل ہے لہٰذاہمیں ہوٹلوں اور بسوں میں دھماکے کرنے والوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں (اسرائیل اور فلسطینی لیڈران کے درمیان مذاکرات ضرور ہوئے مگر ایسے نہیں کہ اسرائیل لیٹ گیا ہو اور فلسطینیوں نے ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر سب کچھ منوا لیا ہو،آج تک وہ اپنے پورے مطالبات نہیں منوا سکے اور مذاکرات کے کسی عمل کے دوران اسرائیل نے کسی مطلوب دہشت گرد کو اپنے گھر داماد کی طرح ٹریٹ نہیں کیا)، اسرائیل کی کوئی سیاسی جماعت دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھی اور نہ ہی ان کے ہمدردوں سے ووٹ کی طلب گار تھی۔اس ماحول میں اسرائیلی حکومت نے دہشت گردی کا سر کچلنے کے لئے تین کام کئے ۔پہلا،دہشت گردوں کے لیڈران، ماسٹر مائنڈز اور operativesکی ٹارگٹ کلنگ شروع کی ،دوسرا،ٹھوس انٹیلی جنس کی بنیاد پر مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں کیں (اسے Operation Defensive Shield) کا نام دیا گیا اور تیسرا، کڑی ناکہ بندیوں کے دوران خود کش بمباروں کو موقع پر پکڑ کر بموں کو ناکارہ کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ والی حکمت عملی متنازع رہی کیونکہ اس میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں اوراسرائیلی فورسز کے میزائل حملوں کی وجہ سے نئے شدت پسندوں کی بھرتی میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ Operation Defensive Shieldزیادہ کامیاب رہا اور ایک تحقیق کے مطابق اس آپریشن کے بعد خود کش حملوں میں خاطر خواہ کمی نوٹ کی گئی۔
یقینا ًہم یہ سب نہیں کر سکتے ،کیونکہ ہر دھماکے کے بعد ہم ایک نئی سازش ایجاد کرتے ہیں جو پرانی سازش کو مات دے کر فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے ۔ہم یہاں سے شروع ہوئے تھے کہ طالبان کا کوئی وجود ہی نہیں ،پھر یہاں پہنچے کہ طالبان ہیں مگر وہ جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ،اس کے بعد یہ آشکار ہوا کہ ہاں پاکستانی طالبان بھی کوئی وجود رکھتے ہیں مگر وہ صرف امریکیوں کے پاکستانی پٹھوئوں اور بلیک واٹر وغیرہ کے خلاف برسر پیکار ہیں، پھر وجدان ہوا کہ جو دھماکے مارکیٹوں، درباروں، عوامی اجتماعات اور عبادت گاہوں میں کئے جاتے ہیں وہ طالبان نہیں کرتے بلکہ ان کے پیچھے بیرونی اور صیہونی طاقتیں ہوتی ہیں ،پھر کہا گیا کہ ٹھیک ہے طالبان ان کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں مگر یہ سب ڈرون کا رد عمل ہے ،اور اب جب سے مذاکرات کا غلغلہ اٹھا ہے تو ہر دھماکے کے بعد یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ یہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے …ہے کوئی منطق کی اس دنیا میں ہمارا ثانی!
ایسے ما حول میں صرف ایک کام کیا جا سکتا ہے جس کے لئے حکومت کا منہ دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں اور وہ یہ کہ ایک ایسی NGOبنائی جائے جس کا کام صرف اور صرف دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی داد رسی کرنا ہو۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کو طبی امداد تو درکار ہوتی ہی ہے لیکن اس کے بعد بھی انہیں اور ان کے خاندان والوں کو محبت ،نگہداشت ،رہنمائی اور دوستی کی ضرورت ہوتی ہے ،دہشت گردی کا شکار ہونے والے جس ذہنی اور جسمانی عذاب سے گذرتے ہیں اس کا ازالہ فقط طبی امداد یا پچاس ہزار کے چیک سے نہیں ہوسکتا (حکومت تو اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتی)بلکہ ان مظلوموںکو ایک مضبوط سہاراچاہئے ،ان کی فوری ضروریات سے لے کر قانونی مددفراہم کرنے تک ، حکومت کی ناکارہ مشینری سے اپنا حق حاصل کرنے سے لے کر ایک نارمل زندگی شروع کرنے تک،نفسیاتی علاج معالجے سے لے کر با عزت روزگار کے حصول تک اور مالی امداد سے لے کر دائمی تحفظ کا احساس دلانے تک دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ہر شخص فوری توجہ کا مستحق ہے ۔ہمارے ملک میں بھانت بھانت کی NGOsتو موجود ہیں مگر اس قسم کی کوئی این جی او کم از کم میری نظر سے نہیں گذری۔دہشت گردی میں جو مرتے ہیں سو مرتے ہیں پیچھے سے ان کے لواحقین بیچارے مردوں سے بھی بدتر زندگی گذارتے ہیں ،اور یہ لواحقین کا لفظ تو تکلفاًلکھ دیا،اصل میں تو وہ بچے پیچھے رہ جاتے ہیں جن کا باپ کسی خود کش بمبار کی جنت کا ایندھن بن جاتا ہے اور اس کا بچہ اس دنیا میں جہنم جیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہو جاتا ہے ،آئیے ان سے مذاکرات کریں!
نوٹ:اس کالم میں جہاں اسرائیل فلسطین تنازعے کے حوالے سے دہشت گردی کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ فلسطینیوں کی جدو جہد آزادی فقط دہشت گردی سے عبارت ہے،فلسطینی حق پر ہیں اور اسرائیلی غیر قانونی قابض، مقصد صرف اسرائیل کی اس پالیسی سے کچھ سبق سیکھنا ہے جو اس نے خود کش دھماکوں کو ختم کرنے کے ضمن میں اپنائی !
تازہ ترین