• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر درویش کو اختیار ہوتا کہ آج کا پاکستان بیان کرنے کے لئے عالمی تاریخ سے ادیبوں اور فنکاروں کا ایک سمپوزیم منعقد کرے تو اس مجلس میں اگلے تدریسی گریڈ کے انتظار میں بے مغز مقالے لکھنے والے محققین خارج از فہرست قرار پاتے۔ ریاستی بیانیے کی تائید میں دلائل ڈھونڈنے کی فکر میں سر کے بالوں سے محروم ہوتے نام نہاد اہل دانش کے لئے کوئی جگہ نہ ہوتی۔ بصیرت سے عاری ان معنک کرداروں سے استفادے کی کوئی خواہش نہ ہوتی جو سمجھتے ہیں کہ بھاری بھر کم عمامے پہن کر آہستہ خرامی اختیار کرنے سے گویا ان کے واہموں میں تدبر اور ہوائی قلعہ بندیوں میں تدبیر کی تہہ داری پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسی مجلس میں زمان و مکاں کی قید غیر ضروری ہوتی۔

ان گنت صدیوں میں اندھیرے، روشنی اور سائے کے کھیل سے برآمد ہونے والے یہ نابغہ روزگار صاحبان بصیرت تقدیم و تاخیرکے تکلفات سے بے نیاز ہیں۔ سو تقویمی ترتیب میں ہمارا پہلا مہمان پندرہویں صدی کا ڈچ مصور بوش (Bosch) ہے۔ جس نے اپنے برش سے خواب کی جنت سے خواہش کے جہنم کی طرف جاتے راستوں پر سادہ دلوں کی افتاد، اختیار کی بدصورتیوں، دولت کی چیرہ دستیوں، حب وطن کے نام پر طالع آزمائیوں اور پارسائی کے نام پر ریاکاری کی تصویریں کھینچیں۔ دوسرا مہمان سولہویں صدی کا ہسپانوی ناول نگار سروانتے ہے۔ سروانتے سے درخواست کی جائے گی کہ اپنے ساتھ ڈان کیخوٹے کو بھی لےآئے تاکہ چمچماتی وردیوں میں ملبوس ہمارے خود ساختہ رومیل اور مونٹگمری کھوکھلی اور بے معنی مہم جوئی کی تجسیم سے ملاقات کر سکیں۔ ایسی مجلس شیکسپیئر کے بغیر کیسے مکمل ہو گی۔ انسانی نفسیات کے اسرار اور اقتدار کی بھول بھلیوں کا یہ نباض الزبتھ اول کے برطانیہ میں آنے والے عہد کی چاپ سن سکتا تھا اور امید کی شہنائی میں نوحے کی سسکی لکھنا بھی جانتا تھا۔ اٹھارہویں صدی میں الیگزنڈر پوپ کا نام سامنے آیا مگر جوناتھن سوئفٹ اپنے مشاہدے کی کاٹ دار دھار سے ریاکاری کے پردے چاک کرتا اس مجلس میں آن بیٹھا۔ برصغیر میں کبیرداس سے میرا بائی تک اور میر سے غالب تک ایک سے ایک منتخبِ روزگار پیدا ہوا ہے۔ ہم نے بوجوہ یاس یگانہ کو منتخب کیا۔ موسیقی بھی شعور انسانی کی حنا بندی میں پیچھے نہیں رہی۔ آڈن اور کالمن نے آئیگور سٹراونسی سے مل کر 1951ء میں ایک اوپیرا The Rake’s Progress مرتب کیا تھا۔ اگر آپ کو اس سے John Bunyan کا The Pilgrim's Progress یاد آجائے تو میرا دوش نہیں۔ آج کے پاکستان میں رہنے والے Pilgrim اورRake میں فرق پہچانتے ہیں۔ اس اوپرا کی ایک کلیدی سطر پڑھئے۔ For idle hearts and hands and minds, the Devil finds work to do. لفظی ترجمے کی بجائے محمد انور خالد کا ایک مصرع پڑھ لیجئے۔ ’جہاں تک معصیت ہے، ارتقا کا در کھلا ہے‘۔ آپ نے توجہ فرمائی کہ ہمارے خیالی سمپوزیم کے بیشتر شرکا کے ترکش میں طنز کے تیر رکھے ہیں۔ طنز کا سادہ فلسفہ یہ ہے کہ جبر کے موسم میں صحیح اور غلط کا دوٹوک فیصلہ دیے بغیر تضاد اور انمل کی مدد سے حقیقی سوال کی نشان دہی کر دی جاتی ہے۔ سادہ لفظوں میں سوال مرتب کرنا ممکن ہوتا تو طنز کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

استاد نے فرمایا تھا۔ حریت کا دروازہ امکانات کی وادی میں کھلتا ہے۔ استاذی نے Profanityکا لفظ استعمال کیا تھا۔ بوجوہ اس ٹھیٹھ بدیسی اصطلاح کا ترجمہ حریت کیا گیا ہے۔

سمپوزیم کے باقاعدہ مباحث سے ایک شام پہلے شیکسپیئر کا ڈرامہ میکبتھ پیش کیا گیا۔ پہلے ایکٹ کے ایک منظر پر خاصی بحث ہوئی۔ Banquo اور اس کا بیٹا Fleanceمیکبتھ کے ہمراہ ڈنکن کو قتل کرنے نکلے ہیں۔ چڑیلوں سے ملاقات ہو چکی۔ رات آدھی نکل چکی ہے۔ محل سرا سے باہر روشنیاں گل ہو چکی ہیں۔ Banquo کہتا ہے۔ The Moon is Down.I have not heard the clock.۔ مطلب یہ کہ چاند تو ڈوب چکا۔ آدھی رات کا گھڑیال کیوں سنائی نہیں دیا۔ مئی 2022ء کے ان ابتدائی دنوں میں پاکستان کو اسی سوال سے واسطہ ہے۔ عدم اعتماد معمول کی پارلیمانی کارروائی تھی لیکن ہماری تاریخ معمول سے انحراف کا روزنامچہ ہے۔ پہلے خبر آئی کہ تحریک عدم اعتماد سازش ہے اور یہ سازش اکتوبر 2021 ء میں شروع ہوئی تھی۔ پھر معلوم ہوا کہ اس فتیلے کو شعلہ سات مارچ 2022 ء کو واشنگٹن میں دکھایا گیا تھا۔ اب حسن و فراست کا یونانی مجسمہ فرماتا ہے کہ سازش تو گزشتہ برس مارچ سے ہو رہی تھی۔ ان سب بیانات کو ملا کر پڑھیں تو منیر نیازی یاد آتے ہیں ۔’ میرے سوا بھی باغ میں کوئی ضرور تھا‘۔ استعارے ہی سے مدد لیں تو یہ واضح ہے کہ باغ میں میکبتھ کی نادیدہ مخلوق ابھی موجود ہے۔ بحران ختم نہیں ہوا۔ ابھی بہت سی پرتیں کھلنا باقی ہیں۔ یہ جو عمران خان صاحب مئی کے آخر میں اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا اعلان فرماتے ہیں، یہ بے خودی بے سبب نہیں۔ پنجاب کے پانیوں میں کچھ ٹھہرائو تو پیدا ہوا ہے۔ اپریل کا ظالم ترین مہینہ بھی گزر چکا لیکن لیل و نہار کے جنگ آزادی نمبر کی ایک تحریر یاد آتی ہے۔ 10 مئی 1857ء کا منظر تھا۔ پادری صاحب نے کمرے کا پردہ ہٹا کر باہر میدان پر نظر ڈالی اور فرمایا ’آج بہت گرمی پڑے گی‘۔ ہم تو خیر گرم و سرد کے عادی ہیں لیکن مئی کی گرمی میں دیواروں سے آنچ آتی ہے۔ اس ملک کے رہنے والوں کی بہتری اسی میں ہے کہ جہاں آدھی رات گزر گئی ہے، آخری پہر بھی عافیت سے گزر جائے تو اچھا ہے۔ گھڑیال کی آواز سنائی نہ دے تو بہتر ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا۔ For whom the bell tolls.۔ بات رکتے رکتے بھی گمبھیر ہو گئی۔ آبرو شاہ مبارک کا شعر سنیے۔

گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں

اگر ملو تو سجن سو طرح کی گھاتیں ہیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین