• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان سے دنیا کے قدیم ترین انسان کے آثاردریافت ہو چکے ہیں۔ قدیم حجری دور (7000BCE) سے کانسی کے دور (2500BCE) اور اسکے بعد تک ہڑپہ کے ثقافتی مدار کا حصہ ہوتے ہوئے سندھ طاس کی آبادیوں کی تعمیر میںبلوچستان کی معدنیات اور کاریگری نے بڑا ہی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ان کی زبان انڈوآرین نہیں تھی بلکہ درواڑی نسل کی برا ہوی زبان تھی۔ یونانیوں کے طویل حملوں، ماریائوں کی یونانیوں پر فتح کے بعد چندرگپت موریا، سیلوس نے 303-BCE میں بلوچ مزاحمت کاروں سے امن معاہدہ کیا۔ بعدازاں ایرانی، افغانی، عرب، مغل اور دہلی کی سلطنت کے قبضے اور ان سے جھگڑے رہے۔ بالآخر قلات کی ریاست (1666-1948) وجود میں آئی۔ انیسویں صدی میں قوم پرستوں نے ایرانی قبضہ کے خلاف بغاوت کردی۔ بیسویں صدی میں بہرام خان نے کنٹرول سنبھالا جسے برطانوی راج نے تسلیم کرلیا۔ پھر میر دوست خان شاہ والیٔ بلوچستان بنا جسے برطانیہ کی مدد سے ایران کے رضا شاہ نے شکست دی اور تختۂ دار پہ چڑھادیا۔ 1839 میں انگریزوں نے حملہ کیا اور مہراب خان کو قتل کردیا گیا۔ 1877 میں انگریزوں نے بلوچستان ایجنسی کی بنیاد رکھی۔ آج کا بلوچستان وہیں کھڑا ہے جہاں کرنل سر رابرٹ گروز بنڈیمن نے اسے نوآبادیاتی تقاضوں کے مطابق ’’ترقی‘‘ دی تھی۔ 1928 میں پہلی بار بلوچستان کے لیے جمہوری اصلاحات کی تجویز محمد علی جناح نے دی جب کہ 1932 میں یوسف مگسی نے پہلی آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد میں منعقد کی۔ اس کے بعد قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی بنی۔ اور انجمن وطن جنگ آزادی میں کانگریس کی اتحادی بنی۔ مسلم لیگ کے حوالے سے قاضی محمد عیسیٰ نے فعال کردار ادا کیا اور 1943 میں جناح کا کوئٹہ میں بڑا استقبال ہوا۔

بلوچستان چیف کمشنر کا صوبہ تھا اور پرنسلی ریاستیں جن میں قلات، مکران، لسبیلہ، خاران وغیرہ شامل تھیں، 3 جون 1947 کے برٹش پلان کے تحت بلوچستان کے علاقوں کو پاکستان یا بھارت کا حصہ بننا تھا۔ برطانیہ نے قلات کو ایک غیر ہندوستانی ریاست نہیں مانا تھا۔ لیکن خان آف قلات کی کنفیڈرل نظام کی تجویز کو مانتے ہوئے جناح نے دوسری شاہی ریاستوں کی طرح پاکستان سے الحاق کی بات کی۔ صوبے کے شاہی جرگے اور کوئٹہ میونسپلٹی کے اراکین نے 29 جون 1947ء کو الحاق کا اعلان کیا تو خان آف قلات اور ان کے دیگر ساتھی شاہی جرگے سے علیحدہ ہوگئے اور 15 اگست کو قلات ریاست کی آزادی کا اعلان کردیا۔ لیکن 27 مارچ 1948 کو کرنل گلزار نے جی او سی جنرل اکبر خان کی ہدایت پر قلات پر قبضہ کرلیا۔ 28مارچ کو قلات کو پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کردیا گیا جس کی منظوری جناح صاحب نے 31 مارچ 1948 کو دی۔

پاکستان سے ’’الحاق‘‘ کے بعد بلوچ مسلسل اپنی قومی خود مختاری کے لیے لڑتے رہے۔ پہلی مزاحمت پرنس عبدالکریم خان نے خان آف قلات کی الحاق کی حمایت کے خلاف کی۔ لشکر کشی کی لیکن ناکام رہا۔ 1955 ءمیں صوبے ختم کر کے ون یونٹ بنادیا گیا، جس کے خلاف مزاحمت شروع ہوگئی۔ دوسری مزاحمت نواب نوروز خان نے 1958-59ءمیں گوریلا جنگ شروع کر کے کی۔ وہ گرفتار ہوئے اور ان کے پانچ بیٹوں اور بھتیجوں کو پھانسی پہ چڑھا دیا گیا۔ تیسری مزاحمت شیر محمد بجرانی مری کی قیادت میں بی ایل ایف نے شروع کی جو 1963ءسے 1969 ءتک جاری رہی تاآنکہ ون یونٹ ختم ہوا اور فائر بندی ہوگئی۔ چوتھی مزاحمت صدر بھٹو کے بلوچستان میں نیپ کی حکومت توڑنے کے خلاف 1973 میں میر ہزار خان بجرانی مری کی بی ایل ایف نے شروع کی جو کہیں 1977ءکے آخر جاکر ختم ہوئیں۔ پانچویں مزاحمت کا آغاز خیر بخش مری کی گرفتاری پر 2001ءمیں ہوا اور 2004ءمیں گوادر میں تین چینی انجینئر ماردئیے گئے۔ میر بالاچ مری اور اکبر بگٹی نے 15 نکاتی مطالبات پیش کیے۔ کچھ نہ ہوا اور اکبر بگٹی کو 2006 میں شہید کردیا گیا جس سے مزاحمت کی آگ پھیل گئی اور اب اس مزاحمت اور فوج کشی کو تقریباً دو دہائیاں ہوچکی ہیں اور اس کے ختم ہونے کے آثار دور دور تک نہیں ہیں۔ 12 اگست 2009 کو خان آف قلات میر دائود سلیمان نے آزادی کا اعلان کیا اور کونسل آف انڈیپنڈنٹ بلوچستان بنائی جس میں ایرانی سیستان بھی شامل ہے۔

بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 44 فیصد ہے جسے بزور طاقت مقبوضہ علاقہ بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کی آبادی کل آبادی کا چھ فیصد اور بلوچ اس کا 52 فیصد ہیں جو ایک ایسی مجتمع قوت نہیں بن سکے کہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرلیں۔ البتہ بلوچستان میں مزاحمت کو کچلنا آسان نہیں ہے ہے اور بلوچستان کی مزاحمت کا بوجھ اٹھانا پاکستان کے دگرگوں معاشی حالات میں مشکل تر ہوتا جائے گا۔ بلوچ مزاحمت پسندوں کو بلوچ نوجوانوں اور آبادی کے بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے اور ایک وسیع و عریض سنگلاخ علاقہ ان کی گوریلا جنگ کے لیے نہایت موزوں ہے۔ بلوچستان پرمسلط جدید نوآبادی نظام فرسودہ اور عوام دشمن ہے جس میں بلوچ عوام کی جمہوری شرکت، مساوی ترقی اور سماجی پیش رفت ممکن نہیں۔ بلوچستان کے تمام تر معدنیاتی و قدرتی ذرائع اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی و فوائد بلوچستان اور اس کے عوام کے کام نہیں آتے جس میں سی پیک کے منصوبے اور گوادر کی بندرگاہ بھی شامل ہے۔ بلوچوں کی نسل کشی اور نسلی تعصب نوجوان نسل کو اور بیگانہ کررہا ہے۔ بلوچستان پہ ایک جعلی سرداری اور گماشتہ نظام مسلط کیا گیا ہے جس کا وہاں کے عوام اور ان کی جمہوری و انسانی تمنائوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس جدید نوآبادیاتی غلبے، قومی استحصال و نابرابری کے ہوتے ہوئے، بلوچستان کے مسئلے کا کوئی حل نکلنے والا نہیں۔ ریاست پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بلوچ عوام کی قومی منشا کا احترام کرتے ہوئے قومی جبر کا خاتمہ کر کے بلوچوں کی ان کے تمام امور میں قومی شرکت کو یقینی بنائے یا پھر ایک بے نتیجہ جنگ میں خود کو اور بلوچوں کو تباہی سے دوچار رکھے۔ بس !رکیے بہت ہوگیا۔۔۔ بلوچوں کو ان کا جائز حق دیا جائے!

تازہ ترین