• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاؤڈ اسپیکر کی آواز کا گراف صرف حاضرین مجلس تک محدود ہونا چاہیے

تفہیم المسائل

سوال: ہمارے گاؤں میں سال کے11مہینے امام مسجد لاؤڈ اسپیکر پر مختلف علماء کی تقاریر کی ریکارڈنگ لگادیتے ہیں ،جس سے تمام لوگ پریشان ہوتے ہیں ،کیا یہ عمل شرعاً درست ہے ؟ (محمد یونس )

جواب: لائوڈ اسپیکر یا آلۂ مکبّر الصوت آواز کو بڑا کر کے پیش کرنے کے لیے ایجاد کیا گیا ہے۔اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر کسی مقرر یا امام وخطیب یا قاری یا حمد ونعت پڑھنے والے کی آوازتعداد زیادہ ہونے کے سبب اُن سب حاضرین وسامعین تک نہ پہنچ سکے جونماز میں شامل ہیں یا خطاب اور حمد ونعت کو سننے کے لیے جمع ہیں، تو یہ آلہ استعمال کیا جائے، تاکہ ِابلاغ اور اِسماع (سنانے)کا مقصد پورا ہوسکے، غرض یہ آلہ تب استعمال کیاجاتا ہے ،جب اس کی ضرورت ہو۔ 

اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ جو لوگ نماز میں شامل نہیں ہیں یا قصد وارادے سے خطاب ، تلاوت یا حمد ونعت کو سننے کے لیے جمع نہیں ہیںیا آرام کر رہے ہیں یا اپنے کام کاج میں مشغول ہیں یا دنیاداری کی باتوں میں لگے ہوئے ہیں ، انہیں سننے پر مجبور کیا جائے ۔اس کا اثر منفی مرتب ہوتا ہے ، خاص طور پر مساجد کے قریب جو مکانات ہوتے ہیں ،ان کے رہنے والے شکایت کرتے ہیں یا ناگواری محسوس کرتے ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ نیند میں خلل واقع ہورہا ہے یا کوئی طالبِ علم اپنے مطالعے میں مصروف ہے یا کوئی شخص تلاوتِ قرآن اور تسبیحات ودرود یا اپنے وظائف میں مشغول ہے یا بیمار ہے ، تو اُسے پریشان نہ کیا جائے ۔

لہٰذا مساجد اور امام بارگاہوں میں لائوڈ اسپیکر کی آواز اُن لوگوں تک محدود رہنی چاہیے جو اس مقصد کے لیے وہاں جمع ہیں ، اگر دوسرے لوگوں کو سننے پر مجبور کیا جائے یا ان کے کام اور آرام میں خلل واقع ہورہا ہواور وہ ناگواری محسوس کر رہے ہوں یا وہ قرآن کی تلاوت توجہ سے سننے کے بجائے اپنی گپ شپ میں لگے ہوں تو قرآن کی اس بے حرمتی کا سبب وہ بنیں گے جو لائوڈ اسپیکر کی آواز بلند کر کے انہیں سننے پر مجبور کر رہے ہیں ۔

اگر کوئی یہ کہے:’’ ہم تو نیک کام کر رہے ہیں ، دین کا پیغام یا قرآن کی تلاوت لوگوں تک پہنچارہے ہیں ‘‘، تو امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب خوارج نے تحکیم کو تسلیم نہ کیا اور حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓکے درمیان ثالث مقرر کرنے کا فیصلہ ہوا توخوارج نے یہ کہہ کر مخالفت کی اور تکفیر شروع کردی کہ اللہ کا فرمان ہے: ’’حکم تو صرف اللہ کا چلے گا،(سورۃالانعام:57)‘‘، تو ایسے لوگوں کی بابت حضرت علیؓ نے فرمایاتھا: ترجمہ: ’’(قرآن کا) یہ کلمہ حق ہے ، لیکن اس سے باطل معنی مرادلیا جارہاہے ،(صحیح مسلم:1066)‘‘،غرض اس طرح کی باطل توجیہ پیش کر کے محلے یا گائوں میں اونچی آواز سے لائوڈ اسپیکر چلانے کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح بعض لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ عام لوگوں کی منشا کے خلاف دکانوں پر یا گاڑیوں میں اونچی آواز سے گانوں کی ریکارڈنگ بھی تو چل رہی ہوتی ہے ،اس کا جواب یہ ہے کہ کسی کی غلطی کو اپنی غلطی کے لیے جواز کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (۱)ترجمہ: ’’تمہیں (حدودِ شرع میں رہتے ہوئے) آسانی فراہم کرنے والا بناکر بھیجا گیا ہے ، دشواری میں مبتلا کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا، (صحیح البخاری: 220)‘‘۔ (۲)ترجمہ:’’(حدودِ شرع میں رہتے ہوئے) آسانیاں پیدا کرو ،دشواریاں پیدا نہ کرو اور (لوگوں کو) بشارت دو اور انھیں (دین سے) متنفر نہ کرو، (صحیح البخاری:69)‘‘۔

اگر کسی ایسی جگہ کہ جہاں لوگ اپنے کاموں میںمشغول ہیں ،وہاں کوئی شخص بلندآواز سے تلاوت کرتا ہے ،تو وہ تلاوت کرنے والاخود ہی گناہ گار ہوگا ، علامہ ابن عابدین شامی ؒلکھتے ہیں: ترجمہ:’’( قرآن مجید کا سننا مطلقاً واجب ہے )یعنی نماز اور خارجِ نمازدونوں حالت میں (قرآن سننا واجب ہے )، یہ آیت اگرچہ نماز کے متعلق وارد ہوئی ہے ،جیسا کہ اس سے پہلے بیان ہوا ہے ،لیکن اعتبار خصوصیت سبب کا نہیں ، عمومِ الفاظ کا ہوتا ہے اور یہ حکم اُس وقت ہے جب کوئی عذر نہ ہوجیسا کہ ’’قنیہ‘‘ میں مذکور ہے:’’گھر میں بچہ قرآن مجید پڑھ رہا ہو اور گھر والے کام کاج میں مصروف ہوں تو وہ نہ سننے میں معذور ہیں، بشرطیکہ انہوں نے اُس کے پڑھنے سے پہلے کام شروع کیا ہو، ورنہ وہ معذور نہیں ہوں گے اور اسی طرح فقہ (کی کتاب) پڑھنے والے کے پاس قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کا حکم ہے‘‘ اور ’’فتح القدیر‘‘ میں ’’خلاصۃ الفتاویٰ ‘‘ کے حوالے سے منقول ہے : ’’ایک شخص فقہی مسائل لکھ رہا ہے اور اس کے پاس کوئی شخص ( بلند آواز سے) قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اس کے لیے(اپنی علمی مصروفیت کی وجہ سے) توجہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا سننا عملاً دشوار ہے ،تو اس کا گناہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے پر ہوگا، اسی طرح لوگ سوئے ہوئے ہیں اور ایک شخص چھت پر بیٹھ کر (بلند آواز سے)تلاوت کرتا ہے ،تو( لوگوں کے نہ سننے کا) گناہ تلاوت کرنے والے پر ہوگا ،کیونکہ لوگوں کے تلاوت قرآن کی طرف توجہ نہ کرنے کا سبب وہی شخص بن رہا ہے یا اس لیے کہ وہ انہیں جگاکر اذیت دے رہا ہے‘‘ ، اس مسئلے میں غور کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ پھر آگے چل کر ’’غُنِیۃ الْمُسْتَمَلّی ‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ترجمہ:’’قرآن کریم پڑھنے والے پر اس کا احترام واجب ہے، اس طور پر کہ وہ بازاروں میں (بلند آواز سے) قرآن مجید نہ پڑھے اور ان مقامات پربھی قرآن کریم نہ پڑھے جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں ، کیونکہ جب کوئی شخص ان مقامات پر قرآن کی (بلند آواز سے ) تلاوت کرے گا ،تو قرآن مجید کے احترام کو ضائع کرنے والا وہی بنے گا اور گناہ اسی پر ہوگا، نہ کہ اپنے کام کاج میں مصروف لوگوں پر ،(عام لوگوں) سے حرج کو دور کرنے کے لیے (یہی مسئلے کی بہتر توجیہہ ہے)، (ردالمحتار علیٰ الدرالمختار ،جلد2 ،ص:237،238، دار احیاء التراث العربی، بیروت)‘‘۔

خلاصۂ کلام یہ کہ مذکورہ بالا گاؤں کے امام مسجد کا طرزعمل شریعت کی رو سے ہرگز درست نہیں ہے، اُنھیں چاہیے کہ مسجد میں لاؤڈاسپیکر کی آواز کی بلندی کا گراف (Volume)اتنا ہی رکھیں ،جو مسجد میں شریک نمازی یا شریکِ محفل حاضرین کے لیے کافی ہو اور بس۔