• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت، سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور عوام الناس کی فوری توجہ شدت سے مطلوب ہے۔ انتباہ یہ ہے کہ ملکی سیاسی ابلاغ کا دھارا بہت خطرناک ہو کر جارحانہ اقدامات میں ڈھلنا شروع ہو گیا ہے۔ ابھی تو آغاز ہے، فوری قابو نہ پایا تو فتنہ و فساد برپا ہوتے دیر نہ لگے گی۔ بیرونی سازش یا مداخلت (یا دونوں) کی جاری بحث تو اپنی جگہ، اس نے تو چلنا بھی ہے جس سے فوری نتیجہ بڑی تیزی سے اور تشویشناک نکلا، یہ کہ پُرخطر آئینی و حکومتی و سیاسی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اللہ خیر کرے! ملک عدم استحکام کی بدترین شکل میں جکڑا گیا ہے۔ اس پس منظر میں رخصت ہوئے رمضان کی 27ویں شب، ہماری اپنی داخلی سیاست کے حوالے سے مسجد نبویؐ میں جو کچھ ہوا، اس کے تین روز سے جاری مہلک سیاسی ابلاغ کے فالو اپ کی بڑھتی حساسیت سرحدوں جتنے ہی اہم داخلی امن کے لیے بھی بڑا قومی چیلنج بن گیا ہے۔ جبکہ ہماری مشرقی و مغربی سرحدوں کی جانب پہلے ہی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی لہر پشاور سے لے کر کراچی، وزیرستان تا گوادر جان لیوا اور بڑے قومی مفادات پر حملہ آور ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے قتل عام (جینو سائیڈ) کے گھنائونے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اکھنڈ بھارت میں شامل کرنے کے لیے جو منصوبہ بنا وہ روبہ عمل ہے۔ مسجد اقصیٰ پر یہودی مسلح دستے بتدریج قابض ہو رہے ہیں، جس کی پُرامن مزاحمت پر بھی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ ہرگز غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ان سے ہمارا براہِ راست کوئی تعلق نہیں بن رہا۔ اس سامراجی شیطانی کھیل میں پاکستان تمام اسلام دشمن طاقتوں کا مشترکہ ہدف ہے، ہم خواہ اس سے رسمی سفارتی تعلق رکھیں یا گریٹ گیم کو سمجھ کر تیاری بمطابق کریں۔

اپنی ملکی گھمبیر صورتحال کے اس پس اور پیش منظر میں خدارا! آئیں، حکومت، اپوزیشن، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، علما، اسکالرز اور جملہ رائے ساز، اپنی چند دنوں میں ’’ڈگمگاتی‘‘ اس یقینی اٹل حقیقت کو تو تسلیم کرلیں کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں (اور بہت سی غیر رجسٹرڈ تنظیموں) میں سے بھی یقیناً کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو اپنے کسی بھی بڑے سے بڑے سیاسی مقصد کے لیے بھی مسجد نبویؐیا پورے شہرِ مدینہ میں سیاسی سرگرمی کا سوچے گی بھی۔ بلاشبہ ہم بحیثیت قوم اپنے ہی مجموعی اعمال کے باعث اپنی تاریخ کے بدترین معاشی و سیاسی و آئینی بحران میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اپنی اسی بھٹکی حیثیت میں ہم ناقابلِ تلافی خسارہ اٹھا چکے جو جاری ہے۔ اس کے باوجود ہم سب کا تحفظ ناموسِ رسالتؐ پر ایمان اور حبِ نبیؐ اٹل ہے۔تشویش یہ کہ ہمارا سیاسی انتشار انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ ہم سب کا دشمن ہم پر بطور قوم حملہ آور ہو چکا، لیکن قومی سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں میں اتنا بدبخت تو کوئی بھی نہیں کہ تحفظ حرمت رسولؐ جیسے اٹل شعائر اسلام کو اپنے حقیر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ تاہم سیاست کے کھلواڑ میں وہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے جس کی کوئی آئینی و قانونی اور اخلاقی گنجائش نہیں ہوتی۔ سو جوش سیاست میں ہونے والے تڑ تڑ سیاسی ابلاغ میں کارکن وزرا اور ٹی وی ٹاک شوز کے پارٹی نمائندگان سے بڑا بڑا کفر بھی نادانستہ بکا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کی نیت وہ ہوتی ہے نہ سوچ جو وہ بک چکے ہوتے ہیں۔رمضان کی 27 ویں رات جو کچھ مسجد نبویؐ میں پاکستانی حکومتی وفد کی حاضری کے دوران ایک محترمہ وزیر صاحبہ اور جواں سال بلوچ رہنما پر ’’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ کے سیاسی موقف سے سرشار کچھ پاکستانی زائرین کی نظر جو پڑی تو وہ یکدم سیاسی جنوں میں مبتلا ہوگئے انہوں نے شعائر اسلامی اور احترام مسجد نبویؐ کے دائرے سے نکل کر ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ یوں دونوں حکومتی ارکان پر سیکورٹی کے گھیرے میں ہوتے بھی ایک قابل مذمت دبائو بڑھتا گیا۔ یہ پاکستانی سیاسی ابلاغ کا مخصوص منفی رنگ ہے کہ نئی نئی متنازعہ بنی حکومت کے ’’ذمے دار‘‘ وزرا نے بھی ہر مسلمان کو رنجیدہ کرنے والی متذکرہ جنونی سیاسی کیفیت میں اسے فوراً اپوزیشن کی منصوبہ بندی قرار دے کر تبرہ شروع کردیا۔ روایتی سیاسی انتقامی حربہ استعمال کرتے مذہبی اشتعال پھیلانے کے الزام میں عمران خان، شیخ رشید اور کئی دوسرے رہنمائوں کے خلاف فیصل آباد میں ایف آئی آر کیلئے درخواست دے دی، پولیس جیسے منتظر بیٹھی تھی، لمحہ نہ لگایا درج کرلی۔ شنید ہے کہ ملک بھر میں ایسے 150 مقدمات درج کردیئے گئے ہیں۔ پھر پی ٹی آئی کے ایک ایم این اے راشد شیخ کو عمرے سےواپسی پر ایئر پورٹ پر ہی گرفتار کرلیاگیا۔اگر ان کا کوئی کردار ہوتا تو سعودی پولیس انہیں گرفتار کرلیتی۔ اصولاً اور قانوناً تو اب ملزمان کی نشاندہی اور کارروائی کے لیے سعودی حکومت پر ہی انحصار ہونا چاہیے ناکہ مخالف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ملزم بنا کر اشتعال پیدا کیا جائے۔ لیکن یہ سب کچھ بہت اشتعال انگیز اور بدترین انتقامی رویہ ہے جو مسجد نبویؐ میں پرلے درجے کے نادانوں سے ہونے والی قابل مذمت نادانی سے بھی بڑھ کر ملک گیر اشتعال انگیزی، خود حکومتی وزرا کی طرف سے داخلی امن کو شدید خطرے میں ڈالنے والا حکومتی اقدام ہے جس کے سوشل میڈیا پر ردعمل نے بہت تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ قومی سیاست کے جاری کھلواڑ میں مسجد نبویؐ میں ہونے والے حادثے کوسیاسی انتقام کا ذریعہ بنانے کے بہت تباہ کن فوری اور دور رس نتائج نکلیں گے، جو دشمن کے مکروہ عزائم کو پوراکریں گے۔

ایسے میں اسلامی نظریاتی کونسل یا کوئی اور محترم شخصیات یا تنظیمیں، حکومت، اپوزیشن اور میڈیا ہائوسز کے اکابرین و ذمے داران کا اجلاس فوراً بلا کر زیر بحث واقعہ پر آئندہ کے لیے متفقہ ضابطہ بناتے ہوئے ہر صورت مکہ و مدینہ میں ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لیےعلانیہ قانون سازی کا اعلان کریں اوریہ جو مسجد نبویؐ میں ہونے والے واقعہ پر ہماری وزارت داخلہ جس سیاسی انتقامی انداز میں سرگرم ہوئی ہے یہ بہت پُرخطر ہے اسے فوراً ختم کیا جائے۔ اسی طرح عمران خان سے لے کر تحریک انصاف کے سبھی ترجمان سخت حساس موضوع پر اپنی زبان بندی خود کرلیں۔ اسٹیبلشمنٹ جو اپنے تئیں نازک سیاسی بحرانوں کو مینج کرنے میں خود بخود آگے آنے کا ریکارڈ رکھتی ہے اتنے گھمبیر بحران میں یکدم اپنے مزاج کو ترک نہ کرے کیونکہ جو ہوتا نظر آ رہا ہے اس میں پولیس کا کردار سیاسی دبائو میں صفر ہی نہیں خطرناک بن سکتا ہے۔ سیاسی ابلاغ کے خطرناک دھارے نے جیسے انتقامی رویے کی صورت اختیار کرلی ہے اس پر اعلیٰ عدلیہ سوموٹو لینے اور میڈیا اپنے طور پر خود کوئی ذمہ دارانہ پالیسی اختیار کرنے کی ذمے داری نبھائے کہ آزادی تو پہلے ہی متاثر ہے، ذمہ داری بھی گم ہوگئی تو بہت نقصان ہوگا۔

تازہ ترین