• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل آپ ہر طرف سے سچی خبریں اور سچی کہانیاں سن رہے ہیں۔آپ ریڈیو اور ٹیلیویژن چینلز اور اخباروں میں سچی خبریں سن رہے ہیں،دیکھ رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں۔ سچی خبروں کے علاوہ آپ نہ کچھ دیکھ رہے ہیں، آپ نہ کچھ سن رہے ہیں، اور آپ نہ کچھ پڑھ رہے ہیں۔ ہر سمت سے آپ پر سچ کی بھرمار ہے۔ سچ کی یلغار نے آپ کو چاروں شانے چت کردیا ہے۔ اب تو آپ خواب میں بھی سچی خبریں سنتے ہیں، سچی خبریں پڑھتے ہیں۔ سنا نہیں ہے آپ نےترمیم کے ساتھ کہ

نیند اسکی،دماغ اسکا،راتیں اسکی ہیں،سچ کی زلفیں

جس کی شانوں پر،پریشاں ہوگئیں

اس قدر سچ سننا صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ آپ گھبرا کر درودیوار سے سر ٹکراتے پھرتے ہیں۔ مٹھائی کس بد بخت کو اچھی نہیں لگتی ؟ مگر زیادہ میٹھا کھانے سے چیونٹیاں آپ کے تعاقب میں نکل پڑتی ہیں۔اس قدر میٹھا کھانا کہ آدمی بذات خود میٹھا بن جائے اور چیونٹیاں اس کے جسم پر رینگنے لگیں، اچھی بات نہیں ہے۔ اسی طرح اس قدر صبح شام سچ سننا کہ آدمی بذات خود سچ ہوجائے، اچھی بات نہیں ہے۔ صحت مند لوگ ایک ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ یہ عام لوگ ہی تو ہوتے ہیں جو خاص لوگوں کو انتخابات میں چن کر اسمبلیوں کا ممبر بناتے ہیں،اور وہ خاص لوگ پشت درپشت ملک پر حکومت کرتے ہیں اور اپنی لاجواب کارکردگی سے ملک وملت کانام اقوام عالم میں روشن کرتے ہیں۔ اس لیے فقیر کی استدعا ہے کہ عام لوگوں کو لگاتار سچ کی بھرمار سے بچائیں۔ بیچ بیچ میں عام لوگوں کو جھوٹ کی ڈوز دیا کریں۔یہ نیکی کاکام حکومتوں کے کرنے کا ہے۔

میرا حکومتوں سے لینا دینا نہیں ہے۔ مجھے جملہ درست کرنے کی اجازت دیجئے۔جوش خطابت بلکہ جوش تحریر میں نہ جانے کیا اول فول لکھ گیا ہوں۔میں کہنا چاہتا ہوں کہ حکومتوں سے میرا دینا برسوں پرانا ہے۔ جتنی میری عمر ہے، اتنا پرانا میرا حکومتوں کو دینا جاری ساری ہے۔جب میں پیدا ہواتھا، تب جس تولیے میں دائی ماں نے مجھے نہلانے کےبعد لپیٹا تھا، وہ تولیا میری ماں نے بازار سے خریدا تھا۔ اس پرمیری ماں نے حکومت وقت کو سیلز ٹیکس دیا تھا۔ تب سے آج تک حکومت کو دینے کاکام جاری ہے۔ ڈبل روٹی خریدنے پر حکومت وقت کو سیلز ٹیکس دیتا ہوں۔ جانگیا خریدنے پر حکومت وقت کو سیلز ٹیکس دیتا ہوں۔ صابن خریدنے پر حکومت کو سیلز ٹیکس دیتا ہوں۔منجن خریدنے پر سیلز ٹیکس دیتا ہوں، گھٹیا سے گھٹیا چیز خریدنے پر بھی آپ پر اور مجھ پر سیلز ٹیکس واجب الادا ہوتا ہے۔ایک روپیہ روزانہ کے حساب سے ہم بائیس کروڑ عوام اوسطاً حکومت وقت کو بائیس کروڑ روپے روزانہ سیلز ٹیکس دیتے ہیں۔ اگر اوسطاً ہم عوام حکومت وقت کو فی کس دس روپے روزانہ سیلز ٹیکس دیتے ہیں، تو پھر ہم عوام حکومت وقت کو دوسوبیس کروڑ روپے روزانہ کے حساب سے سیلز ٹیکس دیتے ہیں۔ وقت برباد کرنے والی باتیں میں اس لیے سنا رہا ہوں تاکہ ثابت کرسکوں کہ حکومتوں سے میرا لینا کبھی نہیں رہا ہے، بلکہ حکومتوں سے میرا دینا رہا ہے۔ آپ کی عدالت میں صفائی پیش کررہا ہوں،تمام مفروضات پس پشت ڈال کر میں اپنا نیک فریضہ پورا کرنا چاہتا ہوں۔ سچ کے مضر صحت اثرات کم کرنے کے لیے میں آپ کو سفید جھوٹ کا تریاق دینا چاہتا ہوں۔

کبھی بھی گنجائش سے زیادہ وزن اٹھانے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ قدرت نے ہماری حدود مقرر کردی ہیں۔ ان حدود سے تجاوز کرجانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اپنی بے بسی کا پتہ تب چلتا ہے جب ہم اپنے بس سے باہر بوجھ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ اولمپک کھیلوں میں پانچ سوکلو وزن اٹھانے والا کھلاڑی ایک اضافی اونس کا وزن سہار نہیں سکتا۔ پانچ سوکلو وزن اٹھانا کھلاڑی کے بس میں تھا۔ ایک اضافی اونس کا بوجھ برداشت کرنا اسکے بس کی بات نہیں تھی۔ہم سب اپنے بس اور بے بسی کی حدود میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان حدود سے ہم تجاوز نہیں کرسکتے۔ فضل الٰہی کا نام دیکر آپ دھڑ ادھڑ پیسا جمع کرتے ہیں اور تجوری میں چھپا کررکھتے ہیں۔ تجوری کی بھی حد ہوتی ہے۔ کھچا کھچ بھرجانے کے بعد آپ اپنی تجوری میں دس روپے کا نوٹ بھی چھپا نہیں سکتے۔ آپ سحری میں پانچ پراٹھے اور دس انڈوں کا آملیٹ نہیں کھاسکتے اگر آپ نے ایسا کیا تو پھر حدود پار کرنے کی پاداش میں آپ کو اپنا زیادہ تر قیمتی وقت اسپتالوں میں گزارنا پڑے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سری پائے اور نلی نہاری اور بہاری کبابوں سے افطاری کرنے کے لیے آپ کو آسمانوں کی طرف کوچ کرنا پڑ جائے۔ اس لیے اپنے بس اور اعتدال کی حدود میں رہتے ہوئے آپ زندگی گزارنے کے گرپر گامزن رہیں۔یہ سب باتیں بے سروپا، فضول اور اوٹ پٹانگ ہیں۔ اگر تجوری کھچا کھچ نوٹوں اور سونے سے بھر جائے، تو آپ بازار سے ایک اور تجوری لے آئیں۔ دوسری تجوری بھر جائے تو تیسری تجوری لے آئیں۔ سحری میں آپ جو چاہیں بے فکر ہوکر کھائیں۔بس، لکڑ ہضم پتھر ہضم چورن کا اسٹاک اپنے پاس رکھیں۔ جہاں تک بس سے باہر بوجھ اٹھانے کی بات ہے، اس بات کو خاطر میں مت لائیں۔ سنا نہیں ہے آپ نے کہ لوگ آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں؟ آپ کو بس اتنا کرنا ہے کہ دوائیں بنانے والی کمپنیوں اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے تجویز کی گئی طاقت کی دوائیں پابندی سے لیتے رہیں۔ آپ مرتے دم تک ٹارزن رہیں گے۔

تازہ ترین