• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں انسان کو مجبور پیدا کیاگیا۔ وہ روتا ہوا پیدا ہوتا اور تکلیف کے عالم میں مرتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک ساری زندگی ان مجبوریوں سے نباہ کرتا ہے۔ یہ مجبوریاں کیا ہیں؟ پیٹ پالنے کی مجبوری۔ آپ کا باس آپ کی شدید بے عزتی کرتا ہے۔ آپ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔ آپ اپنی اولاد کے بارے میں سوچتے ہیں، نوکری ختم ہونے کی صورت میں جو فاقوں مرے گی۔

کتنے ہی شوہر ہیں جو اپنی بیویوں سے سخت نالاں ہیں۔ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ٹائم مشین میں بیٹھ کر وہ ماضی کا سفر کر سکتے تو لازماً وہ ان سے چھٹکارا حاصل کر لیتے۔ وہ مگر اپنی اولاد کی طرف دیکھتے اورگردن جھکا لیتے ہیں۔ کتنی ہی بیویاں ہیں‘ جن کے پاس اگر کوئی دوسرا ٹھکانا ہو تو وہ دوبارہ اپنے شوہر کا منہ دیکھنا گوارا نہ کریں۔ وہ سوچتی ہیں کہ جائوں تو کہاں جائوں؟ بے شمار لوگ ہیں جو صبح آٹھ بجے سوٹ اور ٹائی پہن کر دفتر پہنچنے کی بجائے کسی جنگل میں ندی کنارے چند پرسکون صبحیں گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ خواب مگر خواب ہی رہتے ہیں۔ مجبوری شوق کو قتل کر ڈالتی ہے۔ صفر اعشاریہ ایک فیصد ہی سہی، دنیا میں مگر ایک خاص قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ زیادہ دیر یہ مجبوری سے ہرگز نباہ نہیں کرتے۔ توکل کرناان کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ وہ استعفیٰ لکھ دیتے ہیں۔ بریف کیس اٹھاتے اور انجان منزلوں کی جانب نکل جاتے ہیں۔ یہ لوگ اگر نہ ہوتے تو انسان کبھی براعظم افریقہ سے باہر ہی نہ نکلتا۔

یہ لوگ جب مجبوری کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیتے ہیں تو پھر انہیں تکالیف سے گزارا جاتاہے۔ اس تکلیف کے باوجود یہ لوگ اپنی فطرت کے مطابق اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں۔ مجبور معاشرے کے مجبور لوگ جب انہیں مجبوری کے سامنے جھکنے سے انکار کر تا ہوا دیکھتے ہیں تو مخلوق کے دل میں ان کی محبت پیدا ہونے لگتی ہے۔ تاریخ میں ان کا نام لکھ دیا جاتاہے۔ حضرت بلالؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مجبوریاں تو بہت سی تھیں لیکن کیا وہی جو دل نے کہا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ بلالؓ سمجھوتہ کر لیتے۔ اس لیے کہ حالات کے جبر میں بظاہر پیدائشی غلام ہونے کے باوجود ذہنی طور پر آپؓ آزاد تھے۔ دوسری طرف انسانوں کی اکثریت بظاہر آزاد پیدا ہوتی ہے لیکن حقیقتاً وہ غلام ہیں۔ اپنی خواہشات اور اپنے خوف کے غلام۔

عام لوگوں میں بھی کہیں نہ کہیں آپ کو یہ من موجی لوگ نظر آئیں گے۔ ایک خاص حد کے بعد نہ انہیں نہ تو اپنی نوکری ختم ہونے کا ڈر باقی رہتاہے اور نہ ہی یہ کسی کی منتیں کرتے ہیں۔ وہ تو بلکہ یہ کہتے ہیں کہ کل جو پہاڑ گرنا ہے، آج گرے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ قوموں کی برادری میں پاکستان ایک من موجی ملک ہے۔پیدائشی طور پر غربت کا مارا ایک مجبور ملک۔ کرپشن عام ہے۔شاذ ہی طاقتور پہ قانون گرفت کرتا ہے۔ آج پاکستان میں سیاسی اشرافیہ اور قانون کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔ کبھی انہیں سزا ملتی ہے تو کبھی زور لگا کے وہ بیرونِ ملک روانہ ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ دوبارہ مقتدر ہو جاتے ہیں۔ پہلی بار ملازمین کے شناختی کارڈز پر دولت بیرونِ ملک منتقل ہونے کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ میڈیابیک وقت آزاد ہے اور مجبور بھی۔ وکلا تحریک کے بعد عدلیہ مضبوط ہوئی ہے۔ ملک قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ پرویز مشرف کے بعد کی سب حکومتوں نے ان قرضوں میں انتہائی حد تک اضافہ کیا۔ مقروض بھی کبھی آزاد ہوا ہے ؟

اس سب کے باوجودکچھ چیزیں ایسی ہیں‘ جن میں پاکستان آپ کو ایک من موجی ملک نظر آئے گا۔ کئی باروہ ساری دنیا کا دبائو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرتا ہے جو دنیا کو جو ششدر کر دیتے ہیں۔ عالمی برادری کب یہ چاہتی تھی کہ وہ ایٹم بم بنائے۔ ایران نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کے دیکھ لیا‘ ایٹمی صلاحیت نہ پا سکا۔ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوری کی؛حالانکہ ایٹمی ہتھیار کوئی ہیرے جواہرات نہیں کہ آپ کو کہیں سے مل گئے اور آپ اٹھا کر لے آئے۔ ان کی Maintenance، حفاظت اور استعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا ہوتا ہے۔ عراق‘ لیبیا اور ایران والوں کے ساتھ کیا ہوا ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش میں۔ چلیے ایٹمی ہتھیار بن گئے‘ پھر ان کوہدف پہ Deliver کرنا؟ میزائل پروگرام ایسا شاندار کہ دنیا حیران ہے۔ شاہین تھری اور چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار‘ جنہیں روایتی جنگ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ افغان جہاد کی آڑ میں پاکستان انتہائی چالاکی سے اپنے اہداف حاصل کرتا رہا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ دیکھ لیں۔ 2007ء میں ملک میں روزانہ خود کش دھماکے ہوا کرتے۔ عراق اور شام سمیت دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں‘ جس نے اس طرح کی دہشت گردی کے بعد امن حاصل کیا ہو۔ امریکہ دو ہزار ارب ڈالر خرچ کر کے افغانستان میں ہار گیا۔ پاکستان اس کا دو فیصد خرچ کر کے یہ جنگ جیت لیتاہے۔ یہ کامیابیاں کسی طرح بھی ہضم نہیں ہوتیں‘ جب پاکستان کو آپ ہر میدان میں ناکام دیکھتے ہیں۔ بھارت جیسے طاقتور دشمن کی موجودگی میں زندہ رہنا ہی ایک معجزہ ہے، جس کی وجہ سے آپ کی آدھی فوج ہمیشہ مشرق میں انگیج رہتی ہے۔ اس بڑے دشمن کی موجودگی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا، سبحان اللہ۔

پاکستان کے من موجی ہونے کی ایک شہادت یہ بھی ہے کہ امریکی غلامی کے باوجود آج تک اس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ دنیا جب ان چیزوں کو دیکھتی ہے تو اسے محسوس ہوتاہے کہ غریب اور مقروض ہونے کے باوجود پاکستان ایک خطرناک ملک ہے۔ جان پہ بن آئے‘ تووہ کچھ بھی کر سکتاہے۔

تازہ ترین