• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی سیاست میں ایک قوم کا سچ دوسری قوم کےلئے جھوٹ ہوتا ہے۔ جنہیں ہم ظالموں کا ساتھی سمجھتے ہیں وہ خود کو مظلوموں کاحامی قرار دے ڈالتے ہیں۔ سیاست و سفارت میں کہیں جھوٹ کو سچ اور کہیں سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم جیسے صحافی جھوٹ اور سچ کو علیحدہ علیحدہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ کبھی کامیاب ہو جاتے ہیں کبھی نہیں ہوتے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس سے امریکی صدر بارک اوباما کے خطاب کو میں نے غور سے سنا۔ اس خطاب پر کئی امریکی او ربھارتی صحافیوں نے میری رائے طلب کی جو انہیں سچ نظر آ رہا تھا وہ مجھے جھوٹ لگ رہا تھا اور جو مجھے مظلوم نظر آرہا تھا وہ انہیں ظالم لگتا تھا۔ صدر اوباما نے کہا کہ خودمختاری کی آڑ میں عالمی برادری ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں مظلوموں کے قتل عام پر آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔ صدر اوباما کا اشارہ شام کے حکمرانوں کی طرف تھا جن پر انہوں نے مخالفین کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اسی تقریر میں اوباما نے اسرائیل کے دفاع کی پالیسی پر قائم رہنے کااعلان بھی کیا۔ انہوں نے کینیا کے ایک شاپنگ مال اور پشاور میں مسیحیوں کے ایک چرچ پرحملے کی مذمت کی لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموش رہے۔ جس وقت بارک اوباما اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں خود کو مظلوموں کاساتھی قرار دے رہے تھے اس وقت کئی بھارتی ٹی وی چینلز پر بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کے اس اعتراف پر بحث جاری تھی کہ انہوں نے فوج کے خفیہ فنڈ سے مقبوضہ کشمیر کے کئی بھارت نواز سیاستدانوں کو ملکی مفاد کے نام پر بھاری رقوم تقسیم کیں۔ بارک اوباما کو معلوم ہونا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج آئے دن انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے اور اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے مختلف سیاسی رہنمائوں کو رشوت دیتی ہے۔
بھارتی فوج کے ظلم کو بے نقاب کرنے کے لئے غلام نبی فائی جیسا کوئی کشمیری امریکہ میں آواز اٹھائے تو اوباما کی حکومت اسے پاکستان کا ایجنٹ قرار دے کر گرفتار کرلیتی ہے، اسے دہشت گردوں کا ساتھی کہتی ہے لیکن جب اوباما سے کہا جائے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر ایک متنازع خطہ ہے اور ان قراردادوں پر عمل ہونا چاہئے تو جواب آتا ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کادوطرفہ معاملہ ہے اسے مذاکرت کے ذریعے حل کیاجائے۔
اوباما کی تقریر سنتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ شام میں ظلم و ستم پر دکھ کا اظہار کرنے والوں کو کشمیر اور فلسطین میں ظلم کیوں نظر نہیں آتا؟ اوباما نے اپنی تقریر میں بار بار دہشت گردی کی مذمت کی لیکن انہوں نے کہیں پربھی دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار نہیں کیا۔ آج کل پاکستان میں بھی دہشت گردی کی وجوہات پر بحث جاری ہے اوراکثر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عسکریت پسندی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کرنا غلط ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عسکرت پسندی کو صرف پاکستانی ریاست نے پالیسی کے طور پر استعمال کیا؟ جہاں تک کشمیر کی تحریک ِ آزادی کا سوال ہے تو یہ تحریک قیام پاکستان سے پہلے بھی جاری تھی۔ آج بھی کشمیریوں کایوم شہدا 13جولائی ہے جس کی نسبت 1931 کے ایک واقعے سے ہے جبکہ پاکستان 1947 میں قائم ہوا۔ کشمیر میں جہاد کے حق میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمٰن السیدیس سمیت کئی جید علما فتوے دے چکے ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کی مدد کرے یا نہ کرے لیکن جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتااس خطے کی وادیوں اور پہاڑوں میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ کشمیر کی تحریک ِ مزاحمت کو کچلنے کے لئے بھارت نے قیام پاکستان کے فوراً بعد افغانستان کے راستے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مداخلت شروع کردی۔ افغانستان پر روس نے قبضہ کیا تو بھارت نے روس کا ساتھ دیا جبکہ امریکہ نے پاکستان کے راستے افغان مزاحمت کاروں کے پرائیویٹ جہاد کی حمایت کو اپنی پالیسی کاحصہ بنایا۔ پاکستان میں پرائیویٹ جہاد کاباقاعدہ آغاز امریکی ڈالروں سے ہوا۔ آج پاکستان کو جس دہشت گردی اور انتہاپسندی کا سامنا ہے اس کی جڑیں امریکی سی آئی اے نے مضبوط کی تھیں۔ اس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ پشاور میں ایک چرچ پر حملے میں جنداللہ کا نام آ رہا ہے۔
جنداللہ کے نام سے ایک تنظیم ایرانی بلوچستان میں سرگرم ہے اور امریکہ کے ایک معروف صحافی سیمورہرس نیویارکر میں یہ لکھ چکے ہیں کہ ایران کی شیعہ حکومت کو کمزور کرنے کےلئے امریکی سی آئی اے عسکریت پسندوں کی تنظیم جنداللہ کی مدد کرتی رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پشاور کے چرچ پرحملے میں کوئی اور تنظیم ملوث ہو لیکن میری گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر پاکستان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے تو امریکہ کو بھی اس خطے میں کسی عسکرت پسند تنظیم کی مدد نہیں کرنی چاہئے۔ امریکہ کو چاہئے کہ پاکستان کی سیاسی حکومت کو اس کے اپنےطریقے سے دہشت گردی کے خاتمے کی پالیسی بنانے دے۔ پشاور میں چرچ پر حملےکے بعد عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے رائے عامہ کی حمایت میں بہت کمی واقع ہوئی ہے لیکن ملک کی اہم سیاسی جماعتوں میںابھی تک اس نکتے پراتفاق ہے کہ جو عسکریت پسندمذاکرات کرنا چاہیں ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں اور جو مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ان کے ساتھ بندوق کی زبان میں بات کی جائے۔ حال ہی میں القاعدہ کے رہنماڈاکٹر ایمن الظواہری کا ایک تفصیلی بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ وہ مسلم ممالک میں اہل تشیع اور غیرمسلموں پرحملے نہ کریں۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری سے کئی معاملات پر اختلاف کیاجاسکتا ہے لیکن کئی مبصرین نے ان کے حالیہ بیان کا خیرمقدم کیاہے۔ افغان طالبان کےترجمان جریدے ماہنامہ ’’شریعت‘‘ کے اگست 2013 کے شمارے میں عبدالرحیم ثاقب نے قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھولنے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ القاعدہ کی شرعی کمیٹی کے سربراہ ابوحفص الموریطانی کو ایران میں گرفتار کرلیا گیااور اب وہ موریطانیہ میں نظربند ہیں۔ جب وہ ایران سے موریطانیہ لائے گئے تو انہیںامریکی سی آئی اے کا ایک افسر ملنے آیا اور پوچھا کہ ہم افغانستان سے باعزت واپسی کے لئے کیا کریں؟ ابوحفص نے اسے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کرو اور ان کے جائز مطالبات تسلیم کرو۔ واضح رہے کہ ابوحفص الموریطانی وہ صاحب ہیں جنہوں نےگیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ میں حملوں کے اصل منصوبے کو تبدیل کرایا تھا۔ اصل منصوبے کے مطابق امریکہ میں دس جہازوں کو اغوا کرکے مختلف عمارتوں اور تنصیبات میں گرانا تھا لیکن ابوحفص نے صرف نیویارک اورواشنگٹن میں امریکہ کے فوجی اور تجارتی طاقت کے مراکز پر حملوں کی اجازت دی۔
طالبان کے جریدے میں موجودانکشاف سے پتہ چلتا ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنےکے لئے امریکی حکومت خاموشی سے القاعدہ کے گرفتار رہنمائوں سے بھی صلاح مشورے کرتی ہے۔ افغان طالبان اورامریکہ میں مذاکرات بالکل ابتدائی مراحل میں ہیں۔ کوئی مانےیا نہ مانے لیکن یہ مذاکرات افغانستان میں قیام امن کے لئے بہت ضروری ہیں ا س لئے پاکستان میں بھی طالبان کے جو گروپ مذاکرات چاہتے ہیں ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں جو مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ان کے ساتھ پاکستان کےآئین اور شریعت کے تقاضوںکے عین مطابق سلوک کیاجائے۔
تازہ ترین