• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تربت کے مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک پڑھی لکھی بلوچ خاتون نے خود کش جیکٹ پہن کر کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر حملہ کر دیا۔ماہرین اس واقعے پر شدید پریشان ہیں کہ ایک ماں نے ایک مقصد کی خاطر یوں اپنی جان لی۔اس کے علاوہ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بلوچستان میں اور بھی کئی نوجوان لڑکے لڑکیاں یہی راستہ اختیار کرنے کو تیار ہیں۔گزشتہ مہینے چاغی میں ایک ڈرائیور کی ہلاکت کے بعد جب پورے بلوچستان میں احتجاج شروع ہوا تو سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے کئی افرادجاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے،جس سے بلوچستان کی انتہائی خراب صورتحال کا واضح اظہار ہوتا ہے۔گوکہ شہباز شریف نے اپنے اقتدار کے پہلے ہفتے میں ہی بلوچستان کا دورہ کیا،جہاں بلوچستان کے سب سے بڑے مسئلے یعنی لاپتہ افراد کی بازیابی کے حل کیلئے اپنی کاوشیں بروئے کار لانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بااختیار لوگوں کے سامنے اٹھائوں گا،جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سیاسی قیادت کی دسترس سے باہر ہے۔

بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے اس لیے وہاں کے شہریوں کی زندگیوں کا زیادہ تر دارومدار ایران سے آنے والے سامان پر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تجارت کوحکومت ٹیکس لگا کر کوئی قانونی شکل دیتی مگر 75سال گزرنے کے باوجود آج تک اس تجارت کو کوئی قانونی شکل نہیں دی گئی اورسونے پہ سہاگہ یہ کہ حکمرانوں کی مرضی سے اس سامان کی رسد کسی بھی وقت روک دی جاتی ہے جس کے باعث نہ صرف سخت کشیدگی پیدا ہوتی ہے بلکہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی بعید از قیاس نہیں رہتا۔ ایک طرف ریاست نے اس خطے کو پسماندہ رکھا، نہ تو کوئی انڈسٹریل زون بنائے اور نہ فشری کی تجارت کی حوصلہ افزائی کی اورنہ ہی زراعت کی ترقی کیلئے کوئی دیر پا اقدامات کیے۔ دوسری طرف بلوچ طلبا جودوسرے شہروں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ مسلسل خوف کے سایوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پچھلے دنوں ان طالب علموں نے اپنے ساتھیوں کے لاپتہ ہونے کے خلاف اسلا م آباد پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیاتو ان کے خلاف غداری کے مقدمات درج کر لیے گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے نہ صرف ان مقدمات کو خارج کر دیا بلکہ قائد اعظم یونیورسٹی کے چانسلریعنی صدر پاکستان کو حکم دیا کہ ان طالب علموں کو بلا کرانکے مسائل سنے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک کمیشن کا بھی اعلان کیا جو ان تمام معاملات کو دیکھ کر حل تجویز کرے گا،حکومت وقت کو چاہیے کہ کمیشن بنانےکے ساتھ پورا تعاون کرے تاکہ وفاق مضبوط ہو۔ اس سے پہلے بھی بلوچستان سے گمشدہ افراد کے اہل خانہ نے سینکڑوں کی تعداد میں ڈی چوک پر مظاہرہ کیا جس میں کئی خواتین نے کہا کہ انکے شوہر 20 سال سے زائد عرصے سے گمشدہ ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا وفات پا چکے ہیں،کیا وہ شادی شدہ ہیں یا بیوہ ہو گئی ہیں؟اس منظر نے تمام لوگوں کو آبدیدہ کر دیا۔اس سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن سے ربط پیدا کرنے کیلئے شہریوں کو لاپتہ کرنے کے اقدام کو فوجداری جرم قرار دینے کا مسودہ سینٹ میں پیش کیا، گو کہ اس مسودے کو سینٹ سے منظوری مل گئی لیکن اس وقت کی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اچانک ہی انکشاف کیا کہ یہ بل لاپتہ ہو گیاہے اور یوں یہ مسودہ قانونی شکل اختیار نہ کر سکا۔ اس مسودے کے لاپتہ ہونے سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ریاست کے کچھ اہل کار اس سنجیدہ مسئلے کے حل میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔اس سے پہلے بھی جب ڈاکٹر مالک بلوچ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے چھ یونیورسٹیاں اور تین میڈیکل کالج بنانے کے ساتھ ساتھ جلاوطن بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات شروع کیے۔ حالانکہ ان مذاکرات کو شروع کرنے سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کوآن بورڈ لیا گیا تھا اور جب ڈاکٹر صاحب کی کاوشوں سے یہ مسئلہ حل ہونے کے قریب آیا تو مقتدر قوتوں نے اس عمل کو آگے بڑھنے سے روک دیاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران طبقات، بلوچستان کے مسائل کا سیاسی طریقے کی بجائے طاقت اور جبر کے استعمال سے اسکا حل چاہتے ہیں۔اب یہ شہباز شریف کی سیاسی سوچ کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح وفاق کو مضبوط کرتے ہیں اور مقتدر قوتوں کو اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ گمشدہ افراد کی بازیابی،بلوچ علیحدگی پسند وں سے مذاکرات، ایران سے بارڈر کے ذریعے تجارت کو قانونی شکل دینے اور گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل کا حل ضروری ہے۔موجود ہ حکومت کو چاہیے کہ بلوچستان کے علاوہ سابقہ فاٹاکے اضلاع کو جلد از جلد ترقی دے کر باقی ملک کے برابرلایا جائے گوکہ اس سلسلے میں شہباز شریف نے سابقہ فاٹا کے اضلاع کی ترقی کیلئے فوری طور پر اقدامات کرنے کا اعلان بھی کیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس علاقے کے قومی اسمبلی کے ایک رکن کو جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ دے دیا ہے، کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا جس سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو آئین کی پاسداری اور سویلین سپر میسی کے ارتقا کیلئے مسلسل جدوجہد کرنی ہو گی۔

ا س میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان نے آئینی اور جمہوری راستہ اختیار کرنے سے اجتناب کیا اور سیاست کو مزید زوال پذیر کیالیکن اس کے باوجود موجود ہ حکومت کو عمران کے لیول پر نہیں جانا چاہیے کیونکہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی مذہب کو سیاسی معاملات میں استعمال کیا گیا تو اس کا نقصان سیاست ہی کو ہوا ہے۔

تازہ ترین