• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں سے صرف مسلم لیگ ق ایسی جماعت ہے جس کا اقلیتی ونگ اپنی پارٹی سے خوش ہے۔اس خوشی کی واحد وجہ چوہدری شجاعت حسین ہیں کیونکہ چوہدری شجاعت حسین اقلیتوں کی تمام تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ ہندؤئوں، عیسائیوں اور سکھوں سمیت تمام اقلیتیں چوہدری شجاعت حسین کے اس عمل سے بہت خوش ہیں بلکہ کئی اقلیتی نمائندوں کا یہ خیال ہے کہ چوہدری شجاعت حسین پاکستان کو قائداعظمؒ کا سچا پاکستان بنانا چاہتے ہیں کیونکہ اگر قائداعظمؒ کی گیارہ اگست کو کی گئی تقریر کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس بات میں شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ قائداعظمؒ اقلیتوں کے حقوق کے کس قدر حامی تھے۔ بدقسمتی سے بانی پاکستان کی مخالفت کرنے والے عناصر آج یہاں کے والی وارث بن بیٹھے ہیں۔
اتوار کے روز پشاور میں چرچ پر ہونے والا حملہ دراصل پاکستان پر حملہ تھا، قائداعظمؒ کے خیالات پر حملہ تھا۔ اس حملے نے پاکستان سے محبت کرنے والوں کو بہت پریشان کیا، سیاستدانوں میں سے چوہدری شجاعت حسین سب سے زیادہ پریشان تھے اس سلسلے میں چوہدری شجاعت حسین کا خیال ہے کہ اس واقعے سے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہوکے رہ گیا ہے، پاکستان کے حصے میں رسوائی آئی ہے۔ یہ حملہ جس نے بھی کیا ہے وہ پاکستان کادوست نہیں بلکہ دشمن ہے۔
چوہدری شجاعت حسین کی پریشانی درست ہے، یہ بھی درست ہے کہ جس نے چرچ پر حملہ کیا وہ پاکستان کی بدنامی پر تلا ہوا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گیارہ مئی2013ء کو پاکستان میں جنرل الیکشن ہوئے تھے۔ ان انتخابات نے بھی پاکستان کو بہت بدنام کیا کیونکہ ان انتخابات کے حوالے سے الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ دھاندلی زدہ الیکشن تھے ان انتخابات نے جمہوریت کے چہرے پر سیاہی مل دی تھی ان انتخابات میں ریٹرنگ افسران کا کردار انتہائی عجیب وغریب تھا اس الیکشن نے تارکین وطن کو بھی بہت پریشان کیا کیونکہ پہلی مرتبہ بہت سے پاکستانی بیرونی دنیا سے ووٹ ڈالنے کیلئے پاکستان آئے مگر افسوس کہ ان کے ووٹ کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ اب تقریباً چار مہینوں کے بعد پیپلزپارٹی کے نڈر سینٹیر فیصل رضا عابدی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی ایک سو پچیس سیٹیں چرائی گئیں۔ فیصل رضا عابدی کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق سمیت کئی پارٹیوں کی سیٹیں چرائی گئیں۔ حتیٰ کہ چوہدری شجاعت حسین کے بھائی چوہدری پرویز الٰہی کی بھی سیٹ چرانے کی کوشش کی گئی جسے چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی شاندار سیاسی حکمت عملی کے باعث ناکام بنادیا۔ بتیس سال سے انتخابی سیاست کرنے والے چوہدری پرویز الٰہی نے اس طرح کی سائنسی دھاندلی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ الیکشن سے ایک روز قبل پولنگ اسکیم تبدیل کر دی گئی۔ الیکشن سے پہلے ایک خاص سیاسی جماعت کا ایک خصوصی سیل اپنی کارروائیاں زور شور سے کرتا رہا، ان کی کارروائیوں نے بہت رنگ دکھایا، الیکشن کے روز جب پولنگ کے اوقات میں ایک گھنٹے کا اضافہ کیا گیا تو وقت چھ بجے تک کر دیا گیا، حیرت ہے کہ پولنگ کا ٹائم چھ بجے تک تھا مگر نتائج پانچ بجے برآمد ہونا شروع ہوگئے۔ ابھی نتائج آئے بھی نہیں تھے کہ فاتحانہ تقریر کروادی گئی۔ اس الیکشن کی کھلی دھاندلیوں پر عمران خان ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر شائع کرچکے ہیں۔
میں یہاں آپ کو دو مثالیں پیش کررہا ہوں ان مثالوں کا تحریک انصاف سے تعلق نہیں۔ پہلی مثال یہ ہے کہ مجھے الیکشن کے ایک روز بعد قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر سید فخر امام نے فون کیا کہ ’’مجھے ریٹرنگ آفیسر نے ہرادیاہے…‘‘ میں نے کہا آپ کو کیسے ہرا دیاگیا ۔ میرے اس سوال پر پاکستانی سیاست کے انتہائی شریف کردار سید فخر امام نے کہا کہ ’’میں عدالتوں میں ثابت کردوں گا کہ مجھے ریٹرنگ آفسیر نے ہرایا ہے‘‘۔ آج کل فخر امام کاکیس الیکشن ٹربیونل میں جاری ہے۔ دوسری مثال بڑی عجیب وغریب ہے کہ ایسا پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ گجرات کے ریٹرنگ آفیسر کو مبینہ طور پر فون آیا کہ ’’چوہدری پرویز الٰہی کو ہرا دو، بے شک65ووٹوں سے ہی ہرادو‘‘۔ اس کال کی اطلاع پر چوہدری پرویزالٰہی نے شاندار سیاسی حکمت عملی ترتیب دی اور تقریباً اپنے ڈیڑھ ہزار حامیوں سے کہا کہ وہ پریزائیڈنگ افسران سے نتیجہ دستخط اور مہر سمیت وصول کریں۔ اس دوران خود چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین ریٹرنگ آفیسر کے پاس چلے گئے مگر ریٹرنگ آفیسر نے انہیں اندر داخل ہونے سے منع کردیا اور خود باہر آگیا جواباً چوہدری برادران نے کہا کہ رزلٹ ہمارے پاس آچکا ہے جو سچ ہے آپ وہی رزلٹ دیں،ہمیں سچ کے علاوہ کچھ قبول نہیں۔اس سچ کو باہر آنے میں بارہ گھنٹے لگے۔
یہ بارہ گھنٹے ایک سابق وزیراعظم اور ایک سابق وزیر اعلیٰ نے ریٹرنگ آفیسر کے آفس کے باہر گزارے یعنی وہ رات گیارہ بجے وہاں پہنچے اور اگلے روز دن کے گیارہ بجے سچا نتیجہ لینے میں کامیاب ہوئے ۔چوہدری برادران تو اپنے سیاسی تجربے کے باعث کامیاب ہوگئے مگر اس الیکشن کا یہ سوال بڑا اہم ہے کہ یہ پہلا الیکشن تھا جس میں الزام لگایا گیا کہ پریزائیڈنگ افسران نے نتیجہ مرتب کرتے وقت امیدواروں کے نمائندوں کو اندر نہیں آنے دیا،کیا اس سے شکوک نے جنم نہیں لیا پھر دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے باقی انتخابی حلقوں کے امیدواروں کو تو’’واردات‘‘ کی اطلاع بھی نہ ہو سکی، باقی لوگوں کے پاس اتنی افرادی قوت بھی نہیں تھی خاص طور پر تحریک انصاف کے امیدوار تو بالکل ہی ناتجربہ کار تھے۔ اس دھاندلی زدہ الیکشن سے پاکستان اور پاکستانی جمہوریت کی بدنامی ہوئی، یہ ایک طرح سے بدنامی کاسفر تھا بقول اکرم سہیل
یہ آگ وخون کے ہیں کھیل، جو چلیں گے ابھی
ابھی چلے گی سیاست میرے وطن میں یہی
تازہ ترین