• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی کے دل ہلا دینے والے واقعات کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بہت بڑے حامیوں کو دلائل کی کمی کا سامنا ہے کہ وہ کیسے اپنے موقف پر حکومت یا دوسرے لوگوںکو قائل کرسکیں۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور دو دوسرے فوجیوں کی ایک ساتھ دہشت گردی میں شہادت سے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ ابھی یہ واقعہ تازہ ہی تھاکہ پشاور کے ایک چرچ میںخون کی ہولی کھیلی گئی جن میں کرسچن کمیونٹی کے 80 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ان دونوں سنسنی خیز واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ اس کے بعد اس بات میںکچھ شک نہ رہا کہ اس دہشت گردی کے پیچھے کون سے ہاتھ ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف جو عرصہ سے طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں کو بھی یہ کہنا پڑا کہ چرچ پر حملہ نیک شگون نہیں اور طالبان سے ڈائیلاگ کی سوچ آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔ اس سے ان کی افسردگی اور کرب کا اظہار ہوتا ہے۔ نہ صرف وہ بلکہ پاکستان کی اکثریت اور تقریباً تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے مسئلے کو بات چیت سے حل کرنا چاہتی ہیں۔ یقیناً ان واقعات سے مذاکرات کی زور شور سے بات کرنے والوں کے ہاتھ کمزور ہوئے ہیں اور وہ حضرات اور قوتیں جو طاقت کے استعمال سے دہشت گردوں کو کچلنے کی حامی ہیں کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں۔ اب ڈائیلاگ کے حامی دفاعی پوزیشن میں ہیں مگر وہ پھر بھی اپنے موقف کا اعادہ کر رہے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ خون ریزی سے کسی نہ کسی طرح بچا جائے۔ اگرچہ طالبان نے ان دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے اس میں بالکل شک و شبہ نہیں کہ ان کے اپنے بھی بہت سے گروپ بات چیت کے خلاف ہیں جو اسی سختی سے ڈائیلاگ کے خلاف ہیں جیسے کچھ طاقتیں ایسے پراسس کی مخالف ہیں۔ جب طالبان بغیر کسی تامل کے کہہ دیتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردی کرائی ہے تو پھر بھارت یا کسی اور ملک کے ذمہ ان واقعات کو ڈالنے کی تک نہیں بنتی۔ مگر پھر بھی ان دشمنوں کی کارستانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی ابھی یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بھارت کے سابق آرمی چیف نے ایک ایسا خفیہ یونٹ بنا رکھا تھا جو پاکستان کو ٹارگٹ کرتا رہا لہٰذا بھارت سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی مگر طالبان کے ہوتے ہوئے نہ تو ہمیں بھارت جیسے دشمن کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہمیں دوستوں کے روپ میں دوسرے دشمن چاہئے۔ ہمارا کام دہشت گرد ہی بھرپور انداز میںتمام کر رہے ہیں۔
چرچ حملے کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے یہ اس دن کیا گیا جس دن وزیراعظم نوازشریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کیلئے نیویارک روانہ ہوئے جہاں انہیں عالمی رہنمائوں بشمول سینئر امریکی اہلکاروں سے ملنا ہے۔ ان ملاقاتوں میں پاکستان نے دہشت گردی اور افغانستان کے بارے میں ضرور بات ہونی ہے۔ وزیراعظم یقیناً ان لیڈروںکو یہ یقین دلانے والے تھے کہ پاکستان بات چیت کے ذریعے دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے اور اسے پراسس میں مدد کی ضرورت ہے۔ چرچ حملے نے ان کی سب متوقع کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ اس سے امریکہ کے ہاتھ بھی اس لحاظ سے مضبوط ہوئے کہ وہ ہمیشہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف طاقت کے استعمال پر زوردیتا رہا ہے۔ اس بارے میں پاکستان کو ایک عرصہ سے امریکی دبائو کا سامنا ہے اور وہ کبھی بھی اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ وہ حقانی نیٹ ورک پر بمباری شروع کر دے۔ یہ دہشت گردی اس وقت ہوئی جب حکومت نے جنرل ثناء اللہ کی شہادت کے باوجود اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ ڈائیلاگ کو ہی ترجیح دے گی اور طاقت کے استعمال کو فی الحال ایک طرف رکھے گی۔ حکومت کی مخلصانہ اور سنجیدہ خواہش کا جواب اس اسپرٹ میں نہیں دیا گیا۔ جب دہشت گردی کے ایسے واقعات ہوئے ہیں تو حکومت عرصہ تک ان ہارڈ لائنرز کی رائے کو سرے سے مسترد نہیں کر سکتی جو ڈائیلاگ کے سخت مخالف ہیں اور جلد از جلد طاقت کا استعمال چاہتے ہیں۔ یقیناً اس آپشن میں بہت خون خرابہ ہے۔ اگر حکومت سختی سے دہشت گردوں کو کچلے گی تو دہشت گرد بھی خودکش حملے اور دھماکے کریں گے جن میں بہت سے معصوم لوگوں کا خون بھی بہے گا۔ یہ بات حکومتی اداروں کے علم میں ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک ملک کے کافی حصوں میں متحرک ہے۔ ان کے بے شمار گروپ بن چکے ہیں جو ضروری نہیںکہ کسی ایک ہی کی کمانڈ میں ہوں۔ اگر بات چیت شروع بھی ہو جائے تو جلد ہی مکمل امن وامان ممکن نہیں کیونکہ دہشت گردوں کے دوسرے گروپ اس عمل میں شامل نہیں ہوںگے۔ اب نہ صرف نوازشریف حکومت بلکہ پاک فوج اور ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا کڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اس بھنور سے نکلیں اور امن کا قیام ہوسکے۔ ایک طرف ڈائیلاگ کی مخلصانہ آفر ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے دل ہلا دینے والے واقعات۔ ان کے ذمہ دار بھی وہی ہیں جن سے بات چیت ہونی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میز پر آنے سے قبل طالبان اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں مگر اس دلیل میںکچھ وزن نہیں۔ ان کی طرف سے بہترین پیغام دہشت گردی کو مکمل روکنا تھا جو انہوں نے نہیں دیا۔ دہشت گردی سے حکومت کو دبائو میں نہیں لایا جاسکتا۔
چرچ پر حملہ وزیراعظم کی طرف سے 20 ارب روپے کا نوجوانوں کیلئے مختلف پانچ اسکیموں کے اعلان کے ایک دن بعد ہوا جس سے ان کی اہمیت پر کافی برا اثر پڑا۔ اس پروگرام کا مقصد نوجوانوں کو اسمال بزنس کیلئے قرضے دینا ، ان کی ٹریننگ کرنا ، ان میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنا، انہیں بلاسود قرضے دینا ، انہیں ٹیوشن فیس دینا اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو ہنر اور فنون کی تربیت دینا ہے۔ دہشت گردوں اور خودکش بمباروں کی اکثریت نوعمر اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہزاروں نوجوان اس طرح کی اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں اور باعزت روزگار کمانے کے قابل ہو جائیں تو پھر انہیں غیر قانونی کاموں سے کافی حد تک روکا جاسکتا ہے مگر کیا کیا جائے جب ہماری اپنی ہی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کی ایک بہت بڑی کھیپ ہمارے ہاں پہلے کی موجود ہے۔ دوسری مصیبت جس سے ہم جان نہیں چھڑا سکتے وہ ہے ہمارا ہمسایہ افغانستان جو ہمارے ہاں بے شمار برائیوں اور المیوں کی جڑ ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کے بے شمار واقعات کا ڈائریکٹ تعلق افغانستان سے ہے اور یہ وہیں سے ہی اسپانسر ہوتے ہیں۔ بارڈر پر کنٹرول بڑا ڈھیلا ڈھالا ہے۔
تازہ ترین