• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی حکومت کی مانند موجودہ حکومت کو بھی اصل مسئلہ معاشی مشکلات سے قوم کو نکالنا اور محفوظ رکھنا ہے اور کامیابی یا ناکامی کا تعین بھی اسی پیمانے سے ممکن ہے اور اس صورتحال کو بہتر کرنے میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں، ان میں سرِفہرست افغانستان کے حالات ہیں۔ اس لیے کہ اس کے اثرات معیشت، امن وامان اور سفارتی معاملات سے جڑے ہوئے ہیں مگر اصل کامیابی اس حوالے سے اس لمحہ ہی وقوع پذیر ہو گی جب ہم دنیا اور افغان طالبان کو ایک پیج پر لے کر آنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس وقت سفارتی طور پر شہباز شریف حکومت کو یہ بہت اہم چیلنج درپیش ہے کیونکہ افغانستان کے موجودہ حالات اگربرقرار رہے، افغان طالبان اور امریکہ اور دیگر ممالک کے مابین خلیج موجود رہی تو ایسی صورت میں وطن عزیز میں دہشت گردی کا عفریت دوبارہ توانا ہونے کے لیے بس تیار ہی بیٹھا ہے اور اس کی یہ تیاریاں ہمیں گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے فوجیوں کی مستقل طور پر شہادتوں کے باعث صاف نظر آرہی ہیں کیونکہ افغانستان میں دہشت گرد عناصر دوبارہ پنپ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عناصر افغان طالبان کی حکومت میں زیادہ متحرک کیوں محسوس ہورہے ہیں؟ اس سوال کا اگر حقیقت پسندانہ طور پر جائزہ لیا جائے تو ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتےکہ افغان طالبان میں بہرحال ایسے عناصر موجود ہے جو مسلح تنظیموں سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت بھلے ان سے کوسوں دور ہو مگر ان کی سرزمین پر بیٹھ کرپاکستان میں لہو بہانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ پھر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ افغان طالبان کوئی نظم و ضبط کی پابند مسلح تنظیم نہیں ہے۔ وہ ایک مخصوص سوچ کی بنا پر متحد ہوئے ہیں، اس لیے وہاں فرماں برداری کو زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ افغانستان کی ریاست بذات خود بہت کمزور ہے اور اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر شہر میں قانون کی عملداری کو ممکن بنا سکے کیوں کہ مضبوط ریاستی ڈھانچے کے لیے مضبوط معیشت درکار ہوتی ہے جب کہ افغانستان کی معیشت تو امریکی حمایت کے دور میں بھی لرزہ براندام ہی رہتی تھی اور اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے افغان معیشت مزید 40 فیصد سکڑ گئی ہے۔ اور اس سکڑتی ہوئی معیشت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سال کے وسط تک 97 فیصد افغان شہری غربت کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ اس لیے افغان طالبان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکیں بلکہ ان سہولیات کو بھی برقرار رکھ سکیں جو اشرف غنی دور میں میسر تھیں۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ یہ وہ مثالی حالات ہیں جن میں دہشت گرد اپنی نرسریاں قائم کرسکیں۔ اس لیے ایک اندازے کے مطابق افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک افغانستان میں القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں کی تعداد دگنی ہوگئی ہے اور سابقہ افغان حکومت کے فوجی، پولیس اہلکار، انٹیلی جنس افسران اور نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی سے وابستہ اہلکار داعش میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ اور داعش میں شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت افغان طالبان کو افغانستان میں داعش منظم طور پر للکار رہی ہے۔ خیال رہے کہ یہ لوگ پاکستان کے حوالے سے بھی مخاصمانہ جذبات رکھتے ہیں اور یہ اگرمزید مضبوط ہوئے تو وطن عزیز کو ماضی کی نسبت زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز کو ان خطرات سے کیسے محفوظ بنایا جا سکے؟ تو اس کا حل یہ ہے کہ افغان طالبان اور امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان معاملات کو بہتر بنانے کی غرض سے سفارتی کوششوں کا آغاز کیا جائے۔ افغان طالبان کو اس پر قائل کیا جائے کہ جب تک یہ تصور موجود ہے کہ ان میں سے کچھ عناصر دہشت گردوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، دنیا ان کی بات نہیں سنے گی اور افغان عوام اس وقت تک مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے، اس لیے اس حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کی جائے اور خاص طور پر پاکستان کے ساتھ کسی انڈرسٹینڈنگ تک پہنچا جائے۔ ماضی کی نسبت صرف الزام دھرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جیسا کہ ماضی میں بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس قضیے کا دوسرا فریق امریکہ ہے۔ امریکہ کو بھی یہ سمجھانا چاہئے اور یہ ممکن بھی ہے کہ امریکہ کو یہ سمجھا دیا جائے کہ افغان طالبان سے سوتیلوں کا سا سلوک اس خطے میں بدامنی کو بڑھاوا دے گا۔ افغانستان کے معاشی معاملات میں جس حد تک افغان طالبان کی براہ راست مدد کی جاسکتی ہے وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ضرور کرنی چاہیے بلکہ مختلف امور پر افغان طالبان اور امریکہ کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے افغان طالبان سے اشتراکِ عمل کے سوال پر کہا تھا کہ ’’یہ ممکن ہے ‘‘ اور اس ممکن کو ممکن بنانا پاکستان کی ذمہ داری اور ضرورت بھی ہے۔ افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغانستان کی رقم منجمد کرنے یا تقسیم کردینے سے وہاں مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے، اس لیے ایسے بے شعور فیصلوں سے صرف نقصان ہی ہوگا۔ پاکستان اس وقت بھی ایک ایسی طاقت ہے جو افغانستان میں صورتِ حال کو بہتر اور امریکہ کے رویے کو منصفانہ بنانے میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔

تازہ ترین