• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماحولیات، سماجی ماحولیات، ماحولیاتی نظام کے پرستاروں، تعمیراتی انجینئروں اور منصوبہ سازوں کے لئے مندرجہ ذیل خبر کافی چونکا دینے والی ہوسکتی ہے۔ ’’وزیراعظم کی ہدایت پر سی ڈی اے دن رات محنت کر کے 12 ارب ڈالر کی لاگت کی حامل ڈریم پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جس کے تحت مرگلہ ہلز کے قریب جڑواں دارالحکومت تعمیرکیا جائے گا جو دونوں علاقوں کو ایک سرنگ کے ذریعہ جوڑے گا۔ اس حوالے سے دبئی کے تجارتی اور سیاحتی علاقے شیخ زید ایونیو کی نقل کی جائے گی۔ اس بڑے پروجیکٹ میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان دو رنگ روڈ اور راولپنڈی کے علاقے روات میں ایک نیا ایئرپورٹ بھی تعمیر کیا جائے گا۔ اس کی حتمی شکل پر وزیراعظم اس کا اعلان کریں گے۔ اکنامک زون اور کثیرالمقاصد زون کی تعمیر کیلئے 25 ہزار ایکڑ اراضی کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت مرگلہ ہلز کے پار ایک نیا اسلام آباد تعمیر کیا جائے گا، نئے اور پرانے اسلام آباد کو ایک سرنگ سے ملایا جائے گا۔ بلیو ایریا سے شروع ہونے والی اسلام آباد ہائی وے کو روات تک 8 سے 10 لین پر مشتمل سڑک بنانے کے لئے وسیع کیا جائے گا۔ سڑک کے دونوں طرف کثیرالمنزلہ تجارتی عمارتیں ہوں گی۔ روات کے لئے ایئرپورٹ کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے جوڑا جائے گا۔ تجارتی پلاٹوں سے حکومت کو اربوں ڈالر کی آمدنی ہوگی، تجارتی عمارتوں کی تعمیر سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے گا۔ متوقع حاصل شدہ زمین 42 گائوں کے برابر ہوگی اور اس پر سوک اتھارٹی کے 70 ارب روپے خرچ ہوں گے‘‘۔
تو شب آفریدی، چراغ آفریدم، سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی، خیابان و گلزار باغ آفریدم
ایوبی دور میں جب پاکستان کے دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کرنے کے منصوبے بن رہے تھے تو منتقلی کی حمایت میں جو دلائل پیش کئے گئے تھے ان میں ایک دلیل یہ تھی کہ کراچی گنجان آبادی کا شہر ہے یہاں شور و غوغا، ٹریفک کا اژدھام ہے۔ ہر سال تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دارالحکومت کو امن چین کی جگہ لے جانا ضروری ہے۔ دوسرے کراچی کاروباری شہر ہے اور کاروباری افراد اپنے جائز اور ناجائز کاموں کے لئے سرکاری حکام سے آسانی سے رابطہ کر کے سرکاری کاموں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں، تیسرے سمندر کے سوا یہاں کوئی ایسا قدرتی ماحول نہیں جس سے سرکاری ملازم اور ان کے اہل خانہ لطف اندوز ہوسکیں چنانچہ مرگلہ پہاڑیوں کے سرسبز دامن کو منتخب کیا گیا، نامعلوم کتنے کھیتوں، مکانوں اور درختوں کی بھینٹ چڑھا کر نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھی گئی ابتدا میں اس کی آبادی صرف 96 ہزار تھی جو آہستہ آہستہ بڑھ کر 8 لاکھ اور اب دس لاکھ کے قریب ہوگی اور متوقع منصوبے کی تکمیل پر یہ کراچی شہر کے بعد دوسرا گنجان علاقہ ہوگا اس وقت بھی یہاں درجنوں سوسائٹیاں، پلاٹس، فارم ہائوسز، بنگلے اور کمرشل عمارتیں جائز اور ناجائز طور پر بن رہی ہیں اور مرگلہ کے بہت سے حصوں پر قبضہ کر چکی ہیں۔ اسلام آباد میں اعلیٰ سول عہدےداروں کو ریٹائرمنٹ سے پہلے یا بعد میں پلاٹس معمولی قیمتوں پر دیئے جاتے ہیں، فوجی افسروں کے لئے تو ایک باقاعدہ تنظیم ہے جن کو فارم لینڈ دی جاتی ہے، اس سال بریگیڈیر اور ان سے نیچے کے وہ تمام فوجی یا ان کی بیوائیں جنہوں نے کم از کم 21 سال فوج میں ملازمت کی ہو، درخواست دینے کے اہل ہوں گے اور یہ درخواستیں 15 جولائی تک ہیڈکوارٹر میں پہنچ جانا چاہئیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ درخواست گزار اپنے علاقوں میں اراضی لینے کے خواہشمند ہوں مگر زیادہ تر اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں فارم لینڈ لینا چاہیں گے کیونکہ یہاں کی زمین سب سے قیمتی ہے۔ سینیٹروں، ارکان پارلیمینٹ اور اعلیٰ سول افسروں کو یہیں زمینیں الاٹ کی جاتی ہیں۔الاٹ شدہ یا غیر الاٹ شدہ زمینوں پر تناور درختوں کو بلاوجہ یا محض لکڑی حاصل کرنے کے لئے کاٹنا بہت عام ہے، درخت کی مثال انسان کی طرح ہے جس طرح انسانی بچے دس پندرہ سال میں جوان ہوتے ہیں، یہی صورت درختوں کی ہے۔ میرے نزدیک ایک تناور درخت کو بلاوجہ کاٹ دینا اور انسانی قتل کے مترادف ہے مگر جہاں درجنوں انسانوں کو روزانہ بلاوجہ مار دیا جاتا وہاں سیکڑوں درختوں کی کٹائی کی کیا اہمیت۔ اسلام آباد میں ایک قسم کے درختوں کے پھولوں سے نزلہ ہو جاتا تھا چنانچہ وہ سیکڑوں درخت کاٹ دیئے گئے۔ کراچی میں یوکلپٹس کے درختوں پر نزلہ گرتا ہے، لاہور میں نہروں کے کناروں پر لگے درخت کاٹ دیئے گئے۔جڑواں دارالحکومت والی بات واضح نہیں ہوئی کیا اس سے مراد وفاقی اور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت مراد ہے، انتظامی نقطہ نظر سے یہ بات درست نہیں ہوگی۔ ہوگا تو وہی جو پیا چاہیں گے، مگر کیا کوئی وزیر، مشیر، اعلیٰ عہدیدار وزیراعظم کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ مرگلہ ہلز کی تباہی کا فیصلہ کرنے سے پہلے اس منصوبے پر پھر غور کر لیں اور شیخ زاید ایونیو کے لئے کوئی اور علاقہ منتخب کر لیں۔ کہسار و راغ قدرت کے عطیات ہیں۔ انسان خیابان، گلزار اور باغ بنا سکتا ہے، قدرتی ماحول پہلے ہی تباہی کا شکار ہو رہا ہے۔ ’’یوم ارض‘‘ کا مطلب ہے ذرا سوچئے؟ نیز 42 دیہات کے باسیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے نکال کر بے گھر کر دینا بھی ایک قابل غور مسئلہ ہے، بعض پرانے پروجیکٹوں کے مکین اپنے معاوضوں اور نئے علاقوں میں آباد ہونے کے لئے برسوں سے منتظر ہیں، پھر اس کی کیا ضمانت کہ کثیرالمنزلہ عمارتوں کے فلیٹ فروخت ہو جائیں گے۔ کراچی میں سیکڑوں فلیٹ خالی پڑے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں خریداروں نے اقساط ادا نہیں کیں، ان کو بینک یا سرکار دوبارہ نیلام کرتے رہتے ہیں، ہمیں حقائق سے نظریں چرانے سے گریز کرنا چاہئے۔
تازہ ترین