• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین اور جمہوریت کے منطقے میں رہتے ہوئے فاشزم سے کیسے نپٹا جائے؟ یہ ہے آج کا سوال جس کا جواب ریاست پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر تلاش کرنا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کوئی ریاست اس دُبِدھا کا آسان حل نہیں ڈھونڈ پائی، اصول و ضوابط کے اندر رہ کر بے اصولی اور تشدد کا مقابلہ کرنامشکل کام ہے، بالخصوص اگر ریاست کے ادارے ناتواں ہوں اور انہیں عوام کا غیر مشروط اعتماد حاصل نہ ہو۔ہٹلر کے جرمنی میں ادارے کمزور تھے سو فاشزم جیت گیا، نفرت، جھوٹ اور تشدد جیت گئے، ٹرمپ کے امریکا میں ادارے مضبوط تھے، سو آئین و جمہوریت جیت گئے، اکثریت جیت گئی۔

کرسی جاتی دیکھ کر عمران خان نے ایک ہفتے کے دوران لگ بھگ چھ مرتبہ آئین توڑا، کرسی چلی گئی تو اب ان کے لبوں پر ایک ہی ترانہ ہے، فوری الیکشن کروائے جائیں، ہجرِ اقتدار کا لمحہ لمحہ ان پر بھاری ہے، ان کی ہدایت پر صبح سرفراز چیمہ آئین سے انحراف کرتے رہے اور شام میں یہ ـ ’ملی فریضہ‘ عارف علوی انجام دیتے ہیں (ویسے منصبِ صدارت کی جو بے توقیری اس وقت ہو رہی ہے اس کی مثال ہماری تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے) عمران خان مسلسل جلسے جلوس اور انٹرویوز میں ایک ہی تکرار کر رہے ہیں الیکشن الیکشن الیکشن۔ریاست کے ہر ادارے کو دھمکا رہے ہیں کہ اگر فوری انتخاب نہ کروائے گئے تو حالات بے قابو ہو جائیں گے، ملک خانہ جنگی کے الائو میں جھلس جائے گا، ان کے حواری خونی لانگ مارچ کی دھمکی دے رہے ہیں۔ایسی بے قراری، ایسا اضطراب، آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ عمران خان کیوں سمجھتے ہیں کہ اگلے تین ماہ ان کے سیاسی مستقبل کے لیے فیصلہ کُن ہیں؟

سیدھی سی بات ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مستقبل کو ایک اہم تعیناتی سے مشروط سمجھتے ہیں، اس تعیناتی کی شدید خواہش نے ہی ان کے تعلقات فوج کے ادارے سے بگاڑے، اسی تعیناتی کے فیض سے وہ اگلا الیکشن جیتنا چاہتے تھے (جیسے 2018 کا جیتا تھا)، اسی تعیناتی کا ہی رونا ہے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ وہ اگرنومبرسے پہلے وزیرِ اعظم بن جائیں تووہ یہ تعیناتی کر سکتے ہیں جس کے بعدراوی چین ہی چین لکھے گا (انوکھا لاڈلا راگ درباری کی ایک معروف استھائی ہے) یہ ہے وہ منظر نامہ جس سے عمران خان کی بے چینی اور حالت اِضطراب کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ـ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ والی دماغی حالت کا ہی شاخسانہ ہے کہ عمران خان نے سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر کی تشبیہ کا سرعام استعمال کیا، جس کے جواب میں آئی ایس پی آر نے ایک ’بے نامی‘ ہومیوپیتھک قسم کی پریس ریلیز بھی جاری کی، جس سے ایک دفعہ پھر ثابت ہوا کہ ابھی تک ادارہ اور سیاستدان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آئین اور جمہوریت کے اندر رہتے ہوئے عمران خان سے کیسے نمٹا جائے۔

آئین سے دانستہ انحراف کرنے والے پرمقدمہ بننا چاہیے؟ کیا ملک کے ستّر فی صد عوام کے نمائندوں کو غدار قرار دینا سیاست کے کھیل کا حصہ سمجھا جائے گا؟ مسجدِ نبوی کے احاطے میں ایک منظم منصوبے کے تحت ایک خاتون کے لیے غلیظ زبان استعمال کرنے، حرم کی نسبت سے سعودی اور پاکستانی قوانین توڑنے والے کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے؟ فرح گوگی اور اس کے ’ترجمان‘ کو اربوں روپے کی مبینہ کرپشن پر عدالتوں میں جواب دہ ہونا چاہیے؟ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ رانا ثنا اللہ اور عبدالحمید عدم بہ یک وقت یاد آگئے ’پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو، اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں‘۔رانا صاحب، آپ کی کیفیت قابلِ فہم ہے، یہ مشکل سوالات ہیں، ان کے گھڑے گھڑائے جواب موجود نہیں ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کچھ شہریوں نے (غالباً آپ کی اجازت سے) توہینِ مسجدِ نبویؐ کے پرچے کٹوائے تو آپ کے بہت سے آئین و جمہوریت پسند حامیوں نے اس کی مخالفت کی، اور سیاسی مخالفین سے سیاست کے میدان میں نمٹنے کا مشورہ دیا۔مسئلہ وہی ہے کہ اعلیٰ جمہوری اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے فسطایت کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

عمران خان جس دن سے لیلائے اقتدار سے جدا ہوئے ہیںانتہائی بے چین ہیں، یعنی ’گھر سے آئے گلی میں سو باری، یار بن دیر اضطراب رہا‘، گویا آسمانوں میں طے شدہ حقِ حکم رانی ان سے چھین لیا گیا ہے، جیسے خدا نخواستہ کوئی خلافت و ملوکیت کا جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا ہے، یعنی حق و باطل کا معرکہ برپا ہو گیا ہے، قصرِ اقتدار سے رخصت ہونے کی دیر تھی کہ انہیں فضا میں خون کی بساند محسوس ہونے لگی ہے، گلیاں لہو رنگ ہوئی جاتی ہیں، آسماں بین کرتا سنائی دیتا ہے۔وہ بار بار خانہ جنگی کی دھمکی دے رہے ہیں، یعنی سادہ لفظوں میں یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت میرا حق ہے اور میرے جاں نثار گلی گلی میرے اس حق کے لئے ’غداروں‘ سے لڑیں گے۔ان کے ساتھی بھی بات بے بات خانہ جنگی کا ورد کر رہے ہیں، حد تو یہ ہے کہ جب گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹایا جا رہا تھا تو سرفراز چیمہ نے فرمایا کہ اگر انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو ملک میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔(شاید رمیز راجہ بھی یہی سمجھتے ہوں)۔ سوال پھر وہی ہے کہ سول وار کی دھمکی دینے والوں سے سیاست کے میدان میں کیسے نمٹا جائے؟

ملکی تاریخ میں کئی سیاست دانوںنے سیاست میں مداخلت پر اداروں پہ تنقیدکی ہے، اور انہیں اپنے آئینی کردارمیں لوٹ جانے کا مشورہ دیا ہے، لیکن عمران خان غالباً ہماری تاریخ کے پہلے سیاست دان ہیں جو فوج کوسیاست میں برملامداخلت کی دعوت دے رہے ہیں، انہیں غیر آئینی کردار ادا کرنے پر اکسا رہے ہیں، انہیں ’نیوٹرل‘ ہونے کے طعنے دے رہے ہیں، حق کا ساتھ دینے کی تلقین کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ’انا الحق‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔اب آپ بتائیے، ان صاحب سے آئین و جمہوریت کے دائرے میں کیسے نمٹا جائے؟فیصلہ کرنا پڑے گا، اور جلد از جلد کرنا پڑے گا، میر صاحب نے فرمایا تھا ’ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا‘۔

تازہ ترین