• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان میں ملا منصور کی ہلاکت کے بعد پاکستان کا روایتی رد ِعمل سہ طرفہ ہے ۔پہلا یہ کہ ہم نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اُس نے ملاّ منصور کو ہلاک کرکے افغانستان میں قیام ِامن کے امکان کو سبوتاژ کردیا۔ دوسرا ، ہم پاکستان کی جغرافیائی خودمختاری کی پیہم پامالی پر پریشان ہیں، اور تیسرا یہ کہ ہم اپنے دوستوں اور ہمسایوں کی سازش سے نالاں ہیں کہ اُن کی ملی بھگت نے ملاّ منصور کو ہماری سرزمین پر ہلاک کرکے ہماری ندامت کا سامان کیا۔
اس ضمن میں کچھ سوالات اُٹھتے ہیں جو ایک عام پاکستانی، جو بے چارہ اپنی اسٹیبلشمنٹ کی پراسرار دانائی اور اس کی وضع کردہ خارجہ پالیسی کی بصیرت کا ادراک کرنے سے قاصر ہے، کو پریشان کرتے ہیں۔ یہ سوال اس طرح ہیں۔ ہماری افغانستان کیلئے کیا پالیسی ہے؟کیا ہم صدر اشرف غنی کی حکومت کو افغانستان کی آئینی حکومت سمجھتے ہیں ، یا پھر ہمارے نزدیک طالبان ہی افغان عوام اور ریاست کے درست نمائندے ہیں؟اگرہم صدر غنی کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو کیا ہم ایسی پالیسی اختیارکرنے کے مجاز ہیں جو طالبان کو بھی افغانستان کے سیاسی اسٹیک ہولڈر سمجھتی ہو جبکہ افغان حکومت طالبان کو دہشت گردقرار دے کر اُن میں اچھے یا برے کے درمیان تمیز نہ کرتی ہو؟نیز اس دوران افغانستان میں قیام ِامن کے لئے ہماری پالیسی کیا ہے؟کیا گزشتہ چند برسوں سے ہماری اعلانیہ پالیسی یہ نہیں رہی کہ ہم افغانستان میں قیام ِامن کے ذمہ دار نہیں، محض سہولت کار ہیں جو بطور ایک ہمسایہ افغانوں اور طالبان کو میز پر بٹھانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے ؟
گزشتہ اپریل کو کابل میں ہونے والے حملے ، جس میں چونسٹھ جانیں ضائع ہوگئی تھیں، کے بعد افغان صدر، اشرف غنی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہا تھا ۔۔۔’’ہم پاکستا ن سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی نہیں، بلکہ فوجی آپریشن کے ذریعے اپنی سرزمین پر اُن کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کی توقع کرتے ہیں۔اگر وہ خود اُن کو نشانہ نہیں بنا سکتے، وہ اُنہیں پکڑکر ہماری عدلیہ کے حوالے کردیں۔‘‘ کیاافغان صدر کے الفاظ اورانداز سے اس بات کا اظہار نہیںہوتا کہ اب اُنہیں چار رکنی تعاون گروپ ، جو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے ، کی فعالیت میں کوئی دلچسپی نہیں؟ کیاامریکی صدر نے یہ واضح طور پر نہیں بتادیا کہ ملاّ منصور کو اس لئے ہلاک کیا گیا کیونکہ طالبان کسی طور تشدد ترک کرکے پرامن مذاکرات کے لئے تیار نہیں تو کیا افغانستان میں پرامن مذاکرات پاکستان کی کسی خوابوں کی دنیا میں ہونے تھے ؟ہماری افغان طالبان کے حوالے سے کیا پالیسی ہے ؟جب ’’کوئٹہ شوریٰ‘‘ ایک حقیقت ہو، جب طالبان کے امیر وں کا انتخاب ہماری سرزمین پر ہو، اور جب ہمارے مشیر ِخارجہ فرمائیں کہ ’’ہم اُن پر کچھ اثر رکھتے ہیں ‘‘اور جب ہم اُنہیں چار فریقی میٹنگ میں لے بھی جائیں تو کیا اس کے بعد دنیا ہماری بات پر اعتبار کرے گی کہ ہم مسام دار پاک افغان بارڈر کو کنٹرول نہیں کرسکتے ، اور یہ کہ لاکھوں افغان مہاجرین میں طرح طرح کے لوگ شامل ہوکر ہمارے ہاں آسکتے ہیں؟کیا ہم واقعی دنیا کو بے حد احمق سمجھتے ہیں؟کیا ہماری عقل پر سوال نہیں اٹھتا کہ جب طالبان اور افغان حکومت مذاکرات چاہتے ہی نہیں اور جب افغان حکومت کی پشت پر کھڑی دنیا کی واحد سپرپاور ، جو گزشتہ پندرہ برس سے طالبان سے لڑرہی ہے، مذاکرات کا کوئی امکان نہیں دیکھتی تو ہم اُن کے درمیان کون سی برف پگھلانے پرکمر بستہ ہیں؟کیا ہم افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی آئینی مفاہمت کی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ہم اُنہیں میز پر بٹھا کر افغانستان اور اس کے عوام کے لئے بہتر راستہ تلاش کرسکتے ہیں؟کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ہم اُن طالبان کی بات کررہے ہیں جو گزشتہ پینتیس برس سے میدان ِ جنگ میں ہیں؟ کیا ہم جانتے ہیںکہ افغان عوام کی اکثریت پاکستان کے موقف کو تسلیم نہیں کرتی ؟
شایدہم طالبان کے پلڑے میں اپنا وزن اس لئے ڈال رہے ہیں کہ ہمارے خیال میں موجودہ افغان حکومت دیر تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گی، یا کچھ مزید سال کے بعد امریکہ افغانستان میں اپنی دلچسپی کھودے گااور اس کے بعد ماضی کی طرح افغانستان میں فری اسٹائل خانہ جنگی شروع ہوجائے گی جس میں طالبان فتح یاب ہوکر کابل میں حکومت قائم کرلیں گے ،چنانچہ ہم نہیں چاہتے کہ جب وہ وقت آئے تو طالبان پاکستان کو اپنا دشمن سمجھیں ۔کیا ہم نے امریکی تعاون سے قائم ہونے والی مختلف افغان حکومتوںسے اپنا ’’شک کا رشتہ ‘‘ برقرار نہیں رکھا؟کیا ہم اس بات پر پریشان نہیں رہے کہ طالبان کے سوا قائم ہونے والی ہر افغان حکومت کا جھکائو بھارت کی طرف ہوگا ؟ چنانچہ ہم اپنی دونوں سرحدوںکو غیر محفوظ نہیں بنانا چاہتے ۔
اگر ہم اُن تین ممالک میں سے ایک تھے جنھوں نے نوے کی دہائی میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا اور طالبان ہی ہماری بات سننے کے روادار نہیں، اور اگر ہم اس وقت دنیا کا واحد ملک ہیں جو اُنہیں اپنی سرزمین پر پناہ دئیے ہوئے ہےاور وہ پھر بھی ہماری بات مان کر مذاکرات کی میز پر بیٹھے (بلکہ بلوچ علیحدگی پسندوںکو ہمارے حوالے کرنے ) کے لئے تیار نہیں توکیا جب وہ کل افغانستان پر کنٹرول سنبھال لیں گے تو وہ ہمیں خاطر میں لائیںگے ؟اگرہمارے دل میں یہ احساس جاگزیں ہوچکا ہے کہ دہشت گردگروہوں کو تزویراتی اثاثے بنانا غٖلطی ہے تو کیا تحریک ِطالبان پاکستان اور اس کے افغان کزن پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں ؟ کیا ہماری فوج ان کے خلاف زندگی موت کی جنگ میں مصروف نہیں؟ کیا ٹی ٹی پی ، القاعدہ اور افغان طالبان میں عقائد اور افعال کی شراکت نہیں پائی جاتی؟تو پھر ہم یہ کیوں سوچ رہے ہیں کہ افغان طالبان کی ہماری مغربی سرحد پر موجودگی ہمارے دفاع کے لئے نیک شگون ہے ؟
جب ہم نے تحریک ِطالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے ڈیل کرنے کی کوشش کی اور یہ تصور آگے بڑھایا کہ یہ دراصل ’’ہمارے بھٹکے ہوئے بھائی ‘‘ ہیں اور اس کے نتیجے میں جب اُنھوں نے ہمارے پولیس اور فوج کے جوانوں، شہریوں اورا سکول کے بچوں کو ہلاک کرنا شر وع کیا تو ہمیں احساس ہوا کہ انہیں فوجی طاقت سے کچلنا ہی بہترین حکمت ِعملی ہے، تو پھر افغان حکومت کے لئے بھی طالبان وہی کچھ ہیں جو ہمارے لئے ٹی ٹی پی۔ پھر ہم افغان طالبان کی ہلاکت پر رورو کر آسمان کیوں سر پر اٹھا لیتے ہیں؟ اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ چونکہ افغان اور امریکی فورسز طالبان کو حتمی طور پر میدان جنگ میں شکست نہیں دے سکتیں تو ہم اُنہیں کیوں اپنا دشمن بنا لیں، تو کیا پھر اُتنے طاقتو ر گروہوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینا درست حکمت ِعملی ہے ؟ جب اُنہیں امریکی شکست نہیں دے سکے تو جب وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر ہم پرجنگ مسلط کریں گے تو پھر ہم اُن کا کیا بگاڑ لیںگے ؟
اگر افغان طالبان اور ان کے ذیلی دستوں، جیسا کہ حقانی گروہ، کودنیا دہشت گردگروہ سمجھتی ہے اور ان پر یواین کی قرار داد بھی موجود ہے تو کیا یہ پاکستان جیسی ذمہ دار ریاستوں کے لئے ضروری نہیں کہ یواین کی قرار دار کی پابندی کریں اور اُنہیں اپنے علاقوںسے نکال دیں؟جب ہم سازش کے ثبوت میں یہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے طالبان لیڈر، ملاّ منصور کو افغانستان یا ایران میں ہلاک کرنے کی بجائے پاکستان میں ہلاک کیا تاکہ ہمیں بدنام کرسکے ، تو کیا ہم خودکو احمق ثابت نہیں کررہے؟جب ہم خود اپنی علاقائی خودمختاری کو ان گروہوں کے رحم وکرم پر چھوڑ چکے ہیں تو کیا ہم دنیا سے یہ توقع کرسکتے ہیںکہ وہ ہماری خودمختاری کا احترام کرے گی؟کیا نادرا اور پاسپورٹ کے محکموں میں ہونے والی بدعنوانی کی ذمہ داری بھی عالمی برادری کی مبینہ سازش پر عائد ہوتی ہے ؟ہم اپنی تنگ نظری اور محدود سوچ کی بدولت فکری تنہائی کاشکارہوتے جارہے ہیں، ورنہ اس واقعہ سے سبق سیکھ کراپنے معاملات کو درست کرتے نہ کہ دنیا پر سازش کے طعنوں کی بوچھاڑ کردیتے۔
تازہ ترین