• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تھا کہ اس ہفتے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی حمایت میں کالم لکھا جائے گا جو بیچارے سخت انتخابی معرکہ جیت کر بھی ہارے ہوئوں کی طرح بے یاروں مددگار پھر رہے ہیں لیکن اس سے بڑا موضوع پانامہ لیکس کا تھا جس میں تازہ ڈویلپمنٹ یہ ہوئی تھی کہ اپوزیشن بڑی بڑی پھرتیاں دکھانے کے بعد بالآخراس نکتے پر آتی دکھائی دے رہی ہے کہ جس شخص کا پانامہ لیکس میں نام ہی نہیں ہے اسی کو سب سے بڑا ملزم کس اصول کے تحت گردانا جائے یہ تو کھلا تضاد ہے قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے۔ یہ ایک اہم موضوع تھا لیکن اس سے بھی اہم معرکہ ڈرون حملے کی صورت سامنے آگیا ہم نے شاید اپنے ملک کو پوری دنیا میں بے عزت کروانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ تجاہل عارفانہ کی انتہا ہے کہ خود طالبان نے اپنے ملا اختر منصور عرف ولی محمد کا جنازہ پڑھ لیا اس کی جگہ ملا ہیبت اللہ کو اپنا امیر چن کر بیعت بھی کر لی لیکن ’’ ذمہ داری ‘‘ ’’ذمہ داری‘‘ کی گیم کھیلنے والے ہمارے وزیر مصر ہیں کہ ولی محمدکے ڈی این اے ٹیسٹ کروا کر رپورٹ حاصل کی جائے گی کہ کیا واقعی وہ ملا اختر منصور تھا؟ نیز یہ کہ ہم نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ صحیح جاری کئے تھے یا غلط؟۔ خیرفی الوقت نظریاتی کونسل کے تازہ دھماکے پر اکتفا کرتے ہیں جس میں اپنے تئیں عورت ذات پر بہت بڑا احسان کیا گیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل پنجاب اسمبلی نے تحفظِ نسواں بل پاس کیا تھا جس میں یہ کوشش کی گئی تھی کہ کسی طرح پورے ملک میں خواتین پر روا رکھے جانے والے تشدد کو روکا جا سکے۔ تب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا شیرانی نے اس بل کو غیر اسلامی و غیر شرعی قرار دیتے ہوئے عندیہ ظاہر کیا کہ نظریاتی کونسل کے علماء اس سلسلے میں غور وخوض کے بعد بہتر رہنمائی فرمائیں گے سو الحمدللہ اب حضرت مولانا کی رہنمائی میں نظریاتی کونسل نے 163 دفعات پر مشتمل تحفظِ حقوق نسواں کا ایک اسلامی بل پیش کیا ہے جس کی انہوں نے ٹی وی پر آ کر بڑی مدح و ستائش فرمائی ہے اس بل کا شق وار جائزہ تو ہم مابعد پیش کرتے ہیں پہلے ایک چھوٹے سے نکتے پر بات ہو جائے ۔یہ کہ جید علمائے اسلام نے یہ بل کیا واقعی خواتین کے حقوق کوتحفظ فراہم کرنے کی خاطر پیش فرمایا ہے یا حاصل حقوق کا تیا پانچہ کرنے کے لیے؟ کیونکہ اس میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ ’’ تادیب کیلئے شوہر عورت پر ہلکا تشدد کر سکے گا‘‘۔۔ واہ سبحان اللہ کتنی نرمی ہے خواتین کے ساتھ۔ہمارے پولیس والے کئی ملزموں پر ایسا ہی ہلکا تشدد کرتے ہیں بظاہر خراش تک نہیں آتی لیکن پائوں کے تلوں پر ایسے بید (چھڑی) لگاتے ہیں کہ ملزمان کےچودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ ہلکا تشدد وہ ہوتا ہے جو نظر نہ آئے ہماری نظریاتی کونسل نے عورت ذات پر کتنا ترس کھایا ہے کتنی نرمی برتی ہے کہ بھاری تشدد جو کہ غیر قانونی طور پر خواتین کو سہنا پڑتا تھا اب غیر قانونی تشدد کی جگہ قانونی تشدد کی اجازت دے دی گئی ہے ۔دنیا بھر میں قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ سوسائٹی کے کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کیا جاسکے کیونکہ جو لوگ ظلم و زیادتی کرتے ہیں انہیں کسی قانونی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کیا کبھی کسی نے ظلم کو روکنے کا یہ طریقہ ملاحظہ فرمایا ہے کہ اے ظلم کرنے والو! دیکھوزیادہ ظلم نہ کرنا ہلکا ظلم کرنا۔ اے چورو بڑی چوری نہ کرنا ہلکی چوری کرنا۔ اے قاتلو زیادہ قتل نہ کرنا بس تھوڑے سے قتل کرنا۔ اے ملاوٹ کرنے والو بڑی ملاوٹ نہ کرنا صرف تھوڑی یا ہلکی ملاوٹ کرنا جو بظاہر نظر نہ آئے تا کہ تم کہیں پکڑے نہ جاؤ.
ہم کونسل کی خدمت میں محض اتنی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستانی قوم پر رحم فرمائے۔ خواتین اس قوم کا باوقار نصف حصہ ہیں وہ وطن عزیز کی قابل صد احترام خود مختار برابر کی شہری ہیں ایک فرد کی حیثیت سے ہمارا آئین مرد کو جو حقوق دیتا ہے وہ تمامتر حقوق خواتین کو بھی حاصل ہیں یہ بنیادی انسانی حقوق تو ایمرجنسی یا مارشل لاء میں بھی سلب نہیں کیے جا سکے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے واضح فیصلے موجود ہیں۔نظریاتی کونسل کیسے آئین پاکستان کے تحت دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق چھین سکتی ہے …یہ کہ خواتین عسکری یا فوجی اداروں کو جوائن نہیں کر سکتیں وہ سرکاری وفود میں شامل ہو کر بیرونِ ملک جا سکتی ہیں نہ اندرونِ ملک آنے والے مہمانوں کا استقبال کر سکتی ہیں فلاں پیشہ اختیار کر سکتی ہیں فلاں نہیں کر سکتیں بیمار مردوں کی نرسنگ نہیں کر سکتیں کبھی آپ کہتے ہیں کہ نا بالغ بچیوں کی شادیاں ہونی چاہئیں۔ ہمارا آئین نا بالغ بچیوں یا جبری شادیوں کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ آپ فرماتے ہیں مرد کو دوسری تیسری یا چوتھی شادی کیلئے پہلی بیوی یا بیویوں سے اجازت کی ضرورت نہیں مردوں کو تو ہر معاملے میں بلا اجازت تمامتر اختیارات حاصل ہیں اور خواتین گویا اکیسویں صدی میں بھی باندیاں ہیں آپ تحفظ حقوق نسواں کے نام پر جو رومن لاء مسلط کرنا چاہتے ہیں کیا آپ خواتین کو وطنِ عزیز میں دوسرے درجے کا شہری بنانا چاہتے ہیں؟
تازہ ترین