• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چوہدری نثار کی پریس کانفرنس کے بعد خارجہ پالیسی شدید دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ چوہدری نثار نے جس بے باکی اور بے جگری سے امریکہ کو للکارا ہے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی ہے اس سے گمان یہ ہوتا تھا کہ پریس کانفرنس کے اختتام کیساتھ ہی چوہدری صاحب ایک ترنت کیساتھ امریکہ پر چڑھ دوڑیں گے اور اس حقیر سپر پاور کا اپنے جذبہ ایمانی کی مدد سے بھرکس نکال دینگے۔ وہ تو بھلا ہو چند عاقبت اندیشوں کا کہ جنہوں نےچوہدری صاحب کی مثالی دلیری کو یہ کہہ کر لگام دی کہ حضور جن اداروں کی نااہلی کا آپ نوحہ پڑھ کر طعنہ زن ہیں وہ آپ کی وزارت کے زیر نگرانی ہیں۔شناختی کارڈ کا اجراء بھی حضور الا کے حکم سے ہوتا ہے ۔ پاسپورٹ بھی جناب کی وزارت کے زیر نگرانی ایک ذیلی ادارہ ہے۔ چوہدری صاحب رہے ضدی آدمی انہوں نے اس پر بڑے مدلل انداز میں دلیل دی ہو گی۔ یہ مشرف دور کی کارستانی ہے۔ پیپلز پارٹی کا جرم ہے۔ وہ تو تھے ہی کرپٹ۔ اس پرمغز گفتگو کے بعد ہمارے ممدوح کی وزارت ایسی دکھائی دینے لگی کہ فرشتوں کی سی پارسائی کا گمان ہونے لگا۔
اس پریس کانفرنس کے نتیجے میں ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ ملا منصور حیات ہیں یا جان سے گزر گئے؟ ملا منصور کو مرحوم کہنا ہے یا مفرور کہہ کر پکارنا ہے؟صورت حال ابھی کچھ واضح نہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق سے بھی چوہدری صاحب کی تشفی نہیں ہوئی۔ امریکی صدر باراک اوباما کی پریس کانفرنس بھی چوہدری نثار کو مطمئن نہ کر سکی۔ ملا منصور کے گھر والوں کے بیان کو بھی وزیر موصوف نے درخو اعتناء نہ جانا ۔ طالبان کی جانب سے نئے کمانڈر ملا ہیبت اللہ کی تعیناتی بھی ہماری وزارت خارجہ کو اطمینان نہ دلا سکی ۔ دنیا بھر کے میڈیا کو بھی پریس کانفرنس میں جھوٹ کا پلندہ قرار دے دیا۔بات دراصل یہ ہے کہ چوہدری صاحب ہر آئے گئے کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ تحقیق کے آدمی ہیں۔ پوری طرح تفتیش کر کے ہی ملامنصور کی ہلاکت کی تصدیق کریں گے۔ہما شما کے بیان پر وزارت کے امور چلانے لگیں تو ہو گیا پاکستان میں امن۔ ہو گئی ختم دہشت گردی۔ ہو گیا وزارت خارجہ کا پرچم بلند۔
اب مرحلہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے تفتیشی اور تحقیقی ادارے وزیر داخلہ کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ حضور انور ۔ ملا منصور اب مرحوم ہو گئے ہیں۔ یقین مانئے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ کوہ مری کے سبزہ زاروں میں ہونے والے امن مذاکرات بھول جائیے ۔ دہشت گردوں کے سربراہ سے امن کی گفتگو کو اب قصہ پارینہ جانیے۔ پاکستانی اور افغان طالبان کا فرق مٹا دیجئے۔ خدارا مان جائیے۔ مگر چوہدری صاحب اپنی ہٹ پر قائم ہیں کہ جب تک ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوجاتی وزارت خارجہ کوئی بھی بیان جاری کرنے سے قاصر ہے۔ شاید وہ اس انتظار میں ہیں کہ جب تک ملا منصور خود ہی عالم ارواح سے ان کی ہاٹ لائن پر فون کر کے یقین نہیں دلائیں گے ہمارے وزیر نہیں مانیں گے۔ وزارت داخلہ کے افسران سر جوڑ کر بیٹھے ہوںگے کہ آخر کون سا حیلہ اختیار کیا جائے کہ وزیر داخلہ کو یقین آئے۔ کسی نے تجویز دی ہو گی کہ ملا مرحوم کا فیس بک کاا سٹیٹس چیک کیا جائے؟ انکے ٹوئٹر اکائونٹ کو ہیک کر کے آخری ٹوئٹ ہی دیکھ لیا جائے۔کوئی ملا منصورکی ا نسٹا گرام پر آخری تصویر ہی ثبوت کیلئے لائے کہ چو ہدری صاحب کو یقین آئے اور وزارت کا عملہ سکھ چین کی نیند لینے اپنے گھر جائے۔
چوہدری صاحب کی پریس کانفرنس میں اختصار صرف حق گوئی کے مسئلے میں اختیار کیا گیا۔ ورنہ تو ہر بات کا جواب زلف یار کی طرح طول پکڑتا گیا۔ شنید یہ ہے وہ صحافی بھائی جو چوہدری نثار کی پریس کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں وہ مقرر محترم کی شعلہ بیانی کی وجہ سے گھڑی پر نظر ڈالنے سے قاصر رہتے ہیں ہاں البتہ طوالت کے پیش نظر کبھی کبھی کیلنڈر پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ دنیا کے حالات، سرحدوں کے واقعات، ملکوں کے معاملات اس دوران بدل جاتے مگر ہمارے ممدوح کا بیان جاری رہتا ہے اور بیان بھی ایسا کہ بقول شہنشاہ ظرافت سید ضمیر جعفری
بزرگوں کی طرح کچھ کھانس کر خاموش ہو جانا
مسلمانوں کی صورت دفعتاََ پرجوش ہو جانا
چوہدری صاحب دوران پریس کانفرنس بڑھتی ہوئی کرپشن اور اداروں کی بے حسی پر آزردہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کئی نازک مواقع اس ڈھنگ سے بھی آئے کہ چوہدری صاحب نے پیپلز پارٹی پر اس تمام شورش کے الزام لگائے اور انہی کو کرپشن کا موجب قرار دیدیا۔
اب قصہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزام لگانا درحقیقت سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کا پر نور چہرہ ذہن میں آتا ہے تو کرپشن کا معنی وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ حضرت رحمان ملک اسی مقام پر ایسی ہی ولولہ انگیز پریس کانفرنسز کیا کرتے تھے۔ نیلے سوٹ کے ساتھ پیلی ٹائی لگا کر کچھ ایسی رنگیلی انگریزی میں نت نئے انکشافات کیا کرتے تھے۔ دہشت گردوں کیخلاف حتمی جنگ کا نعرہ انہوں نے بھی متعدد بار بلند کیا،ہر ے پاسپورٹ کی حرمت کا ذکر بھی اکثر سنا گیا،شناختی کارڈ کی تصدیق کے نعرے بھی لگائے گئے لیکن شنید یہ ہے کہ یہ گفتنی تیغ و تفنگ ڈالروں کے سیلاب میں بہہ گئی۔ اب جب ملک صاحب اپنے آبائی گائوں یعنی کہ لندن سے بڑھتی ہوئی کرپشن کے بارے میں بیان داغتے ہیں تو ہم جیسے ناہنجار ہنسی کو روکنے کی خاطر اپنے ہی دامن میں منہ چھپا لیتے ہیں۔دل ہی دل میں مسکرا لیتے ہیں۔
خیر پیپلز پارٹی کا قصہ تو ایسے ہی جملہ معترضہ کے طور پر مضمون میں آگیا۔ بات ہو رہی تھی وزارت داخلہ میں کرپشن اور ملا منصور کی۔ اس ضمن میں چیف جسٹس کا بیان نہایت قابل قدر ہے۔ انہوں نے ملک کو عمومی طور ہر کرپشن کا گڑھ اور نااہلی کا منبع قرار دے دیا ہے۔ جس کا نتیجہ مجھ سے بدخواہ یہ بھی نکال سکتے ہیںکہ کرپشن ایک لعنت، بدعت او ربرائی نہیں ہے ۔ یہ ایک مقبول نعرہ ہے۔ جس کو موقع محل دیکھ کر فریق مخالف کے خلاف بڑی سہولت سے لگایا جا سکتا ہے۔یہ وہ بوتل کا جن ہے جسے کبھی بھی حسب ضرورت جگایا جا سکتا ہے۔
بات ملا منصور سے شروع ہوئی اور کرپشن کے خار زاروں تک پہنچ گئی۔ ادھر وزارت داخلہ کے افسران اس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ اس ملا منصور کا کیا کریں۔ مار دیں یا چھوڑ دیں؟تصدیق کریں یا تردید؟ ایسے میں جہلم میں ناقص تعمیر کی وجہ سے ایک پل گر نے کی آواز سنائی دی۔ وزارت خارجہ کے ایک افسر نے وزیر موصوف کو بشاش کرنے کے لئے ایسی لاجواب تجویز دی کہ قلم ہی توڑ دیا۔ فرمانے لگے جہلم کا یہ پل ناقص تعمیرکی وجہ سے نہیں گرا۔ یہ ایک دہشت گردی کے خلاف بہت بڑا اور نایاب منصوبہ تھا۔ ملا منصور دراصل اس پل کے نیچے آ کر ہلاک ہوا ہے۔ملبے میں ابھی بھی اس کی لاش کہیں دفن ہو گی۔تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اس پل کا گرنا دراصل حکومت کی دہشت گردی کے خلاف لازوال منصوبہ بندی کی دلیل ہے۔ جانے کب سے یہ منصف پل اس ملا کے انتظار میں لرزہ براندام تھا۔جیسے ہی اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا پل دھڑام سے اس پر گرا اور دہشت گردی ختم کرنے کا منصوبہ نہایت کامرانی سےکامیاب ہوا۔اس سے نہ صرف وزارت داخلہ کی دانش کے ڈونگرے بجیں گے بلکہ پنجاب حکومت کی حکمت پر بھی لوگ عش عش کریں گے۔ ساتھ ساتھ یہ اعلان بھی کر دیا جائے گاکہ آئندہ پل سیمنٹ، ریت، بجری اور سریے کے بجائے شناختی کارڈ کے میٹریل سے بنیںگے ۔ کیونکہ بم چل جاتے ہیں، ڈرون پھٹ جاتے ہیں مگر یہ شناختی کارڈ نہیں پھٹتا ۔دہشت گردی کے حملوں کے بعد لاشوں اور ملبے کے ڈھیر سے بالکل نیا نکور اصلی حالت میں برآمد ہوجاتا ہے۔ جانے چوہدری صاحب نے اس لازوال تجویز کو پذیرائی دی کہ نہیں لیکن مجھ حقیر کا بھی ایک ناقص مشورہ امریکی ڈرون کی در اندازی کے بارے میں لیتے جائیں۔ وزارت داخلہ اگر سمجھ داری سے کام لے تو ڈرون حملوں کی نگرانی کا کام اپنے فیصل آباد والے راجہ صاحب کو سونپ دے۔میں حتمی وثوق سے کہتا ہوں کہ پھرکوئی اس ملک میں ڈرون پاڑ کے دخائے……
تازہ ترین